• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اپنی زندگی میں بعض ورثاء کو کچھ جائیداد ہبہ کرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب گزارش ہےکہ دو بیٹوں غلام اکبر اور عابد حسین کی وفات کے بعد میرے والد صاحب محترم اللہ بخش صاحب مرحوم نے اپنی زرعی زمین تقریبا 16 ویگے(بیگھے) یعنی8کلے(ایکڑ)اپنے دو بیٹوں محمد قاسم اور منیراحمد اور پوتوں (یعنی غلام اکبر اور عابد حسین مرحومین) کے بیٹوں نعیم اکبراورفہیم عابد کے نام کروا دی تھی۔

بیٹا عابد حسین مرحوم والد صاحب مرحوم کے ساتھ زمینوں پر کام کرتا تھا ان کی وفات پر کوئی ذاتی جائیداد وغیرہ ان کے نام نہ تھی ،جب کہ غلام اکبر مرحوم سرکاری ملازم تھا، اس کی پنشن، گریجویٹی اس کی بیوہ اور تین بیٹیاں، ایک بیٹا،والد اور والدہ کے حصے عدالت نے تقسیم کردیئے، پنشن بیوہ لے رہی ہے اور حصے تقسیم ہوئے، مرحوم عابد حسین کی بیوہ نے نکاح کرلیا اور بچے دادا دادی کی پرورش میں رہے، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔

مرحوم غلام اکبر کی بیوہ  اور بچوں نے علیحدگی اختیار کرلی اور میرے والد محترم اللہ بخش مرحوم کے خلاف مقدمہ بازی شروع کر دی جس کی وجہ سے والد صاحب مرحوم نے عدالت سےسٹےلےلیااورفیصلہ والد صاحب کے خلاف ہوا، مقدمہ ابھی ہائی کورٹ میں چل رہا ہے اس دوران والد صاحب وفات پاگئے ہیں، میری والدہ بیوہ اللہ بخش حیات ہیں۔

مفتی صاحب! اب یہ بتائیں کہ کیامیری والدہ عدالت میں درخواست دیں کہ میرے مرحوم خاوند کی جائیداد کو شرعی طور پر وارثان میں تقسیم کیا جائے کیونکہ میرے خاوند نےمیرا اور میری تین بیٹیوں کا حق مارا ہے۔

جناب مفتی صاحب!اس متنازعہ جائیداد کے بارے میں شرعی طور پر قرآن وحدیث کے مطابق بہترین طریقہ تقسیم کے بارے میں بتائیں جس میں مرحوم بھی گنہگار نہ ہوں اورحق دار وارث بھی گنہگار نہ ہوں اورناحق حرام بھی نہ کھائیں اور یہ بتائیں کہ وارثان میں پوتے اورپوتیاں آتے ہیں یا نہیں ؟مرحوم تو یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کرچلے گئے اورایک دن ہم نے بھی مرنا ہے تو آپ ان تمام معاملات کا کوئی بہترین مشورہ دیں تاکہ کوئی حل نکل سکے ۔

وارثان

بیوہ،چار بیٹے:(محمدقاسم ،منیراحمد،غلام اکبرمرحوم اسکا ایک بیٹااورتین بیٹیاں،عابدحسین مرحوم اسکاایک بیٹا اوردوبیٹیاں )اور تین بیٹیاں ہیں(کلثوم بی بی،رخسانہ بی بی ،حمیدہ بی بی)

وضاحت مطلوب ہے:نام کروانے کا تحریری ثبوت مہیا کریں

جواب وضاحت:والد صاحب نے اپنی زندگی میں اسٹام فروش کے پاس جاکر رجسٹری ہبہ لکھوایا جبکہ یہ پوتے نابالغ بچے تھے۔یہ رجسٹری ان کی زندگی میں رجسٹرڈہوگئی تھی اس کےبعد اس کاحصہ لینے کےلیے والد صاحب کی زندگی میں ایک پوتانعیم اکبرنےاپنے نانا،ماموں اوروالدہ کےکہنے پرعدالتوں میں کیس کروادیا،والد صاحب کو اذیت دینے کےلیے۔ اس کےبعد والد صاحب نے اس جگہ کاسٹےلیا عدالت سے، جوکہ ابھی بھی ہائی کورٹ میں کیس زیرسماعت ہے،وہ رجسٹری دوسرے حصے داروں کےپاس موجود ہے وہ مجھے نہیں دیتے۔اس لیے تحریری ثبوت دینا ناممکن ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے والد مرحوم نے جوجائیداد یعنی 16بیگھے اپنی زندگی میں اپنے دوبیٹوں محمد قاسم اورمنیر احمد اورپوتوں یعنی نعیم اکبر اورفہیم عابد کے نام کروادی تھی وہ انہیں کی ہو گئی اس میں دیگر ورثاء کاحق نہیں،لہذا آپ کی والدہ کے لیے عدالت میں درخواست دے کر اسے منسوخ (کینسل )کروانا درست نہیں ،البتہ جوجائیداد باقی ہےاس میں آٹھواں حصہ (8/1)بیوہ کا ہوگا اورباقی بیٹے ،بیٹیوں میں دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہوگا۔بیٹوں کےہوتے ہوئے پوتے ،پوتیاں وارث نہیں بنتے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved