• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اپنی زندگی میں مال خرچ کرنے کی شرعی حد

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سورۃ بقرہ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ جو مال ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردو۔زکوۃ ادا کرنے کے علاوہ زیادہ سے زیادہ مال خرچ کرنے کی شریعت مطہرہ کی روشنی میں حد کیا ہے۔ مسلم شریف کی حدیث 4209کی روشنی میں وصیت کرنے کی حد ایک تہائی مقرر کی ہے۔ عن عامر عن أبيه قال قال سعد جاءني رسول الله {صلى الله عليه وسلم} يعودني عام حجة الوداع من وجع اشتد بي فقلت يا رسول الله إني قد بلغ بي من الوجع ما ترى وأنا ذو مالٍ ولا يرثني إلا ابنة ٌ لي أفأتصدق بثلثي مالي قال لا قال قلت فالشطر يا رسول الله قال لا قلت فالثلث قال الثلث والثلث كثير أو كبير إنك إن تذر ورثتك أغنياء خيرٌ من أن تدعهم عالة ً يتكففون الناس وإنك لن تنفق نفقة ً تبتغي بها وجه الله إلا أجرت بها حتى ما تجعل في في امرأتك قال فقلت يا رسول الله أخلف بعد أصحابي قال إنك لن تخلف فتعمل عملاً تبتغي به وجه الله إلا ازددت به درجة ً ورفعة ً ولعلك تخلف حتى ينتفع بك أقوامٌ ويضر بك آخرون اللهم أمض لأصحابي هجرتهم ولا تردهم على أعقابهم ولكن البائس سعد بن خولة يرثي له رسول الله {صلى الله عليه وسلم} أن مات بمكة.

ترجمہ:عامر بن سعد ؓاپنے والد(حضرت سعد بن ابی وقاصؓ)سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نےکہا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺنے ایسی بیماری میں میری عیادت کی جس کی وجہ سے میں موت کےکنارے پہنچ چکا تھا میں نے عرض کی اللہ کے رسول مجھے ایسی بیماری نے آلیا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں اور میں مالدار آدمی ہوں اور صرف ایک بیٹی کے سوا میراکوئی وارث نہیں ۔تو کیا میں اپنے مال کا دوتہائی حصہ صدقہ کردوں ؟آپ ﷺنے فرمایا کہ نہیں ۔میں نے عرض کی کیا میں اس کا آدھا حصہ صدقہ کردوں ؟آپ نے فرمایا نہیں البتہ ایک تہائی صدقہ کردو  اور ایک تہائی بہت ہے بلاشبہ اگر تم اپنے ورثاء کومالدار چھوڑجاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑجاؤ،وہ لوگوں کےسامنے دست سوال دراز کرتے پھریں ۔اور تم کوئی چیز بھی خرچ نہیں کرتے جس کے ذریعے سے تم اللہ کی رضا چاہتے ہو مگر تمہیں اس کا اجر دیا جاتا ہے  حتی کہ اس لقمے پربھی جوتم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو  میں نے عرض کی اللہ کے رسول میں اپنے ساتھیوں کے مدینہ لوٹ جانےکے بعد پیچھے یہیں مکہ میں چھوڑدیا جاؤں گا ؟آپﷺ نے فرمایا تمہیں پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا۔پھر تم ایسا عمل نہیں کروگے جس کے ذریعے سے تم اللہ کی رضا چاہتے ہوگے مگر اس کی بنا پر تم درجے اور بلندی میں بڑھ جاؤگے اور شاید تمہیں چھوڑ دیا جائے حتی کہ تمہارے ذریعے سے بہت سی قوموں کو نفع ملے اور دوسری بہت سی قوموں کونقصان پہنچے ۔اے اللہ میرے ساتھیوں کےلیے ان کی ہجرت کو جاری رکھ اور انہیں ان کی ایڑیوں کے بل واپس نہ لوٹالیکن بے چارے سعد بن خولہ ؓ  :رسول اللہ ﷺنے اس وجہ سے ان کے لیے غم اظہار افسوس کیا کہ وہ مکہ میں فوت ہوگئے تھے ۔

سوال یہ ہے کہ یہی حد اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ مال خرچ کرنے کی ہے یا کوئی اور ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ حدیث کا تعلق مرض الوفات میں مال خرچ کرنے سے ہے کہ آدمی مرض الوفات میں ایک تہائی سے زائد مال نہ کسی کو ہدیہ کرسکتا ہے اورنہ ایک تہائی سے زائد وصیت کرسکتا ہے اور اگر ایک تہائی سے زائد ہدیہ کردیا یا ایک تہائی سے زائد وصیت کردی تو وہ شرعی ورثاء کی اجازت پر موقوف رہے گی بشرطیکہ ورثاء عاقل بالغ ہوں۔ مذکورہ حدیث کا تعلق اپنی زندگی میں مال خرچ کرنے سے نہیں، اپنی زندگی میں مال خرچ کرنے کی کوئی لگی بندھی حد مقرر نہیں اس کا دارومدار ہر آدمی کے شخصی حالات پر ہے البتہ عام حالات میں اپنی زندگی میں خرچ کرنے کا مستحب درجہ یہ ہے کہ اپنی اور اپنے زیر کفالت افراد کی ضرورت  سے زائد مال کو خرچ کردے ، اس سے زائد خرچ نہ کرے۔

نوٹ: سورۃ بقرہ میں ضرورت سے زائد مال خرچ کرنے کا جو حکم مذکور ہے وہ حکم استحبابی ہے فرض یا وجوب کےلیے نہیں۔

جوہرۃ النیرۃ(389/2)میں ہے :قوله: ( ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة ) يعني بعد موته وهم أصحاء بالغون فإن أجازه بعضهم ولم يجزه بعضهم جاز على المجيز بقدر حصته ويبطل في حق الراد .جو ہرة النيرة (   21/2) ميں ہے:  قوله:( أو يعلقه بموته فيقول إذا مت فقد وقفت داری على كذا ) ؛ لأنه إذا علقه بموته فقد أخرجه مخرج الوصية وذلك جائز ويعتبر من الثلث ؛ لأنه تبرع علقه بموته فكان من الثلث .فتاوی شامی(360/3) میں ہے:اعلم أن الصدقة تستحب بفاضل عن كفايته وكفاية من يمونه وإن تصدق بما ينقص مؤنة من يمونه إثم ومن أراد التصدق بماله كله وهو يعلم من نفسه حسن التوكل والصبر عن المسألة فله ذلك وإلا فلا يجوز ويكره لمن لا صبر له على الضيق أن ينقص نفقة نفسه عن الكفاية التامة كذا في شرح درر البحار وفي التاترخانية عن المحيط الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء.احسن الفتاوی (292/9)ایک سوال کے جواب میں ہے :"اگر وارثوں نے مورث کی زندگی میں اپنے حصوں پر قبضہ کر لیا ہو  تو وہ زندگی ہی میں مورث کی ملک سے نکل گئے۔کل ترکہ وہی ثلث رہا جو اس نے وصیت کے لیے رکھا تھا لہٰذااس سے دو ثلث وارثوں میں بقدر حصص تقسیم ہوں گے اور ایک ثلث میں وصیت جاری ہو گی ،البتہ اگر سب وارث عاقل،بالغ ہوں اوروہ سب محفوظ داشتہ بطیبِ خاطروصیت پر خرچ کرنے پر راضی ہوں تو کل رقم وصیت کے مطابق خرچ کی جا سکتی ہے "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved