- فتوی نمبر: 16-282
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > کمپنی و بینک
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپروول اتھارٹی اورکنسلٹنٹ کو تحفے تحائف بھیجنا
پی کمپنی اپنا مال ڈسٹری بیوٹر کو فروخت کرتی ہے پھر وہ آگے عام گاہکوں کو مال فروخت کرتے ہیں کمپنی کی طرف سے مختلف اداروں کے اپروول اتھارٹی کے لوگوں کو اور مارکیٹ میں موجود کنسلٹنٹس کو عید تہوار کے موقع پر مٹھا ئیاں یا پھل وغیرہ ایک ہزار ،پندرہ سو اور دوہزار کی چیزیں ہدیہ بھیج دی جاتی ہیں اور ساتھ کمپنی کی نئی پروڈکٹس بھی متعارف کرادی جاتی ہیں تاکہ کنسلٹنٹ (consultant) اور اپروول اتھارٹی حضرات پی کمپنی کے مال کا بھی مشورہ لوگوں کو دیں تاکہ پی کمپنی کی سیل مزید بڑھ جائے یا پہلے سے بہتر ہوجائے۔
کیا مذکورہ بالا صورتحال کے مطابق کنسلٹنٹ حضرات اور اپروول اتارٹی کے لوگوں کو مٹھائی وغیرہ پندرہ سو سے دوہزار تک بھجوانا شرعا درست ہے؟ اگر درست نہیں ہے تو اس کے متبادل کیا صورت اختیار کی جاسکتی ہے؟
کنسلٹنٹ حضرات سے وہ لوگ مراد ہیں جو مارکیٹ میں اس غرض سے بیٹھے ہوئے ہیں کہ اجرت لے کر لوگوں کو مشورہ دیں ۔پہلے دارالافتاء سے اس بارے میں فتوی لیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ انہیں تحفے تحائف دینا ناجائز ہے۔ اب یہ مسئلہ ہے کہ انہیں ہلکی سے ہلکی چیز بھی دینی ہو تو ان کے اور اپنے سٹینڈرڈ کو دیکھتے ہوئے پندرہ سو دو ہزار کی دینی پڑتی ہے تو کیا اس کی گنجائش ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت جائز نہیں ہے کیونکہ اپروول اتھارٹی کے لوگوں کی ذمہ داری میں یہ شامل ہوتا ہے کہ کمپنی کے لیے بہتر مال کو پاس کریں ،اسی کام کی انہیں تنخواہ ملتی ہے۔ اسی طرح کنسلٹنٹ حضرات لوگوں سے باقاعدہ اجرت لیتے ہیں تاکہ انہیں صحیح مشورہ دیں، اس لیے انہیں اس غرض سے کوئی ایسا ہدیہ دینا جس کی وجہ سے وہ اخلاقی طور پر مجبور ہوں کہ آپ کے مال کا مشورہ دیں، یہ رشوت بنے گا ۔البتہ اتنا چھوٹا ہدیہ جس کی وجہ سے وہ مجبور نہ ہوں وہ جائز ہے ۔
اس صورت کا متبادل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس موقع پر آپ اپنی نئی پروڈکٹس کے ایک دوسیمپل بغیر عوض کے دیں کہ ہماری نئی پروڈکٹ ہے، اس کو چیک کرلیں، اگر مناسب معلوم ہو تو لوگوں کو اس کا بھی مشورہ دے دیا کریں۔
حاشية ابن عابدين (5/ 362)
الفتح ثم الرشوة أربعة أقسام منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة الثاني ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق لأنه واجب عليه
لو كان لأحد أمر محق فيه عند وال فأدى أحد الأشخاص غير الموظفين مالا ليقوم له بإتمام ذلك الأمر فيحل دفع ذلك وأخذه ; لأنه وإن كانت معاونة الإنسان للآخر بدون مال , واجبة فأخذ المال مقابل المعاونة لم يكن إلا بمثابة أجرة ( الولوالجية بتغيير يسير ) .
© Copyright 2024, All Rights Reserved