- فتوی نمبر: 12-355
- تاریخ: 23 اگست 2018
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے عمر کو ستر ہ لاکھ پاکستانی روپے کے لحاظ ایک ماہ کے ادھار پر ایک چیز فروخت کی اور عقد تام ہو گیا ۔بعد میں زید کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ ایسا نہ ہو کہ ایک ماہ بعد یہ پاکستانی کرنسی گر جائے یعنی اس کی جو آج ویلیو ہے وہ شاید ایک ماہ بعد نہ رہے تو اس خوف سے وہ عمر سے کہتا ہے کہ اس سترہ لاکھ پاکستانی روپے کا آج کل جتنا ڈالر بنتا ہے آپ مجھے اتنا ہی ڈالر دو گے ایک ماہ بعد ۔کیا یہ معاملہ جائز ہے ؟اگر ناجائز ہے تو اس نقصان سے بچنے کے لیے متبادل جائز صورت کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں خرید وفروخت کے وقت چونکہ پاکستانی روپے طے ہوئے تھے اس لیے خریدار کے ذمے تو پاکستانی روپے ہی بنتے ہیں البتہ اگر دونوں راضی ہوں تو روپے کے بدلے ڈالر لیے جاسکتے ہیں ۔اس طرح کے نقصان سے بچنے کی متبادل صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ابتدا میں سودا ڈالر میں ہی کر لیا جائے۔
چنانچہ مجلہ (مادہ:242)میں ہے:
اذا بيان وصف الثمن وقت اليع لزم علي المشتري ان يؤدي الثمن من نوع النقود التي وصفها ۔
بذل المجہود(12/15) میں ہے:
وقداختلف الناس في اقتضاء الدراهم من الدنانير فذهب اکثر اهل العلم الي جوازه ومنع من ذلک ابو سلمة بن عبد الرحمن وابو شبرمة وکان ابن ابي ليلي يکره ذلک الا بسعريو مه ولا يعتبر غيره السعر ولم يبا لو ا کان ذلک باغلي او ارخص من سعراليوم ۔
بذل کے حاشیہ(11/15) میں ہے:
قال الموفق يجوز هذا في قول اکثر اهل العلم ومنع منه ابن عباس وابو سلمة وابن شبرمة وروي ذلک عن ابن مسعود لان التقابض شرط وقد تخلف ولنا حديث الباب وقال احمد ؒ انما يقضيه بسعريومهالم يختلفوافيه الا ما قال اصحاب الري انما يقبضه مکانها ذهبا علي التراضي لانه بيع في الحال فجاز ماتر اضيا عليه اذاا ختلف الجنس
© Copyright 2024, All Rights Reserved