• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عاقدین ثمن مجہول پر راضی ہوجائیں تو کیا یہ عقد درست ہے؟

استفتاء

ہمارے ہاں  بستی میں اس طرح ہوتا ہے کہ لوگ جب گندم کاٹتے ہیں تو وہ آڑھتی کو دے آتے ہیں اور گندم کی قیمت دو مہینے بعد لی جائے گی جو حکومت کی قیمت ہوگی، چاہے وہ قیمت اب کی قیمت سے زیادہ ہو یا کم ہو اور اس بات پر آڑھتی اور گاؤں والے جو اس کو گندم بیچتے ہیں راضی ہوتے ہیں تو کیا اب یہ معاملہ کرنا درست ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ معاملہ ناجائز ہے۔

توجیہ: خرید وفروخت کے صحیح ہونے کے لیے  منجملہ  دیگر شرائط  کے ایک شرط یہ  بھی ہے کہ خرید وفروخت کے وقت قیمت  معلوم ہو جبکہ مذکورہ صورت میں  خرید وفروخت  کے وقت  قیمت معلوم نہیں اس لیے یہ معاملہ ناجائز ہے۔

شامی (7/ 59) میں ہے:

«وكما ‌يعتبر ‌مكان ‌العقد يعتبر زمنه أيضا كما يفهم مما قدمناه في مسألة الكساد والرخص فلا يعتبر زمن الإيفاء: لأن القيمة فيه مجهولة وقت العقد وفي البحر عن شرح المجمع لو باعه إلى أجل معين وشرط أن يعطيه المشتري أي نقد يروج يومئذ كان البيع فاسدا»

بدائع الصنائع (4/ 359):

«‌أن ‌جملة ‌الثمن ‌إذا كانت مجهولة عند العقد في بيع مضاف إلى جملة فالبيع فاسد»

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/32) میں ہے:

"فالحاصل أن كل جهالة تفضي إلى المنازعة مبطلة فليس يلزم أن ما لايفضي إليها يصح معها بل لا بد مع عدم الإفضاء إليها في الصحة من كون المبيع على حدود الشرع ألا ترى أن المتبايعين قد يتراضيا على شرط لا يقتضيه العقد وعلى البيع بأجل مجهول كقدوم الحاج ونحوه ولايعتبر ذلك مصحّحًا، كذا في فتح القدير.”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved