- فتوی نمبر: 23-322
- تاریخ: 25 اپریل 2024
- عنوانات: عبادات > قربانی کا بیان
استفتاء
(1)جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا نام اور عقیقہ پانچویں یا ساتویں دن کردیا جاتا ہے آیا اس کے بعد عمر کے کسی بھی حصے میں جو عقیقہ کیا جاتا ہے وہ عقیقہ نہیں ہوتا بلکہ صرف صدقہ ہوتا ہے ؟
(2)ایک بچے کے عقیقہ میں جو بھی جانور ذبح کرنا مقصود ہو اس کا عمر میں پورا ہونا کافی ہے یا اس کے دانت نکلنے ضروری ہیں؟
(3)جیسے قربانی کے حصے کیے جاتے ہیں اسی طرح عقیقہ کے بھی تین حصے فرض اور ضروری ہیں ؟اور ان کی تقسیم کیسے کرنی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) صدقہ نہیں ہوتاعقیقہ ہی ہوتا ہے۔
(2) اصل جانور میں عمر کا پورا ہونا ہے ،اس کی ایک علامت دانت کا نکلنا ہے۔ اگر کسی جانور کے بارے میں حتمی طور پر علم ہو کہ اس کی عمر پوری ہے تو علامت کے بغیر بھی عقیقہ درست ہوگا۔البتہ جانور بیچنے والے بسااوقات جھوٹ بھی بول دیتے ہیں لہذابیچنے والوں کی بات پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا اس لیے شک وشبہ سے بچنے کےلیے علامت (یعنی دانت ) کے بغیر جانور نہ خریدیں۔
(3) قربانی اور عقیقہ دونوں میں تین حصے کرنا فرض اور ضروری نہیں ہے ،بلکہ بہتر ہے ۔
(1)اعلاء السنن ((17/117میں ہے:أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع.
(1)فیض الباری( ۴/ 337) میں ہے:ثم إن الترمذي أجاز بها إلی یوم أحدى وعشرین، قلت بل یجوز إلی أن یموت لما رأیت في بعض الروایات أن النبي صلی الله عليه وسلم عقّ عن نفسه بنفسه.
(1)فتاوی محمودیہ (26/ 387) میں ہے:
سوال:تعلیقات ترمذی میں حدیث عقیقہ کے تحت ۲۱؍یوم تک تحریر فرمایاہے ، توکیا بعد ۲۱؍ یوم کے محض رسم عقیقہ رہ جاتی ہے، یاعمرمیں جب چاہیں عقیقہ کرسکتے ہیں؟
جواب: عقیقہ فی نفسہٖ مباح ہے ،اگربہ نیت اتباع کیا جائے، توثواب ملتاہے، اوراس کا اصلی وقت پیدائش سے ساتواں دن ہے ، (پیدائش کے دن سے ایک دن پیشتر )شرح سفر السعاد،۲ ص ۳۸۳؍ میں حضرت شیخ عبدالحق دہلویؒ نے اکیسویں روز کی تحدید نہیں کی بلکہ ۲۱؍ روز تک بیان کرکے کہدیا علیٰ ہذا القیاس ،شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن صاحب محدث دیوبندی ؒ کو کہتے ہیں، ان کا مقصود بھی تحدید نہیں ۔ ۔۔۔
(1)فتاوی محمودیہ (26/ 387) میں ہے:
سوال:- عقیقہ بچہ کی پیدائش کے کتنے روز کے بعد سنت ہے۔
جواب:اگر ساتویں روز نہ کرسکے توچو دھویں روز ورنہ اکیسویں روز علیٰ ہٰذا لقیاس پیدائش سے ایک روز پہلے(یعنی ساتویں روز)پھر ساتویں ماہ میں پھرساتویں سال میں غرض کہ عدد کی رعایت بہتر ہے۔
(2) تبيين الحقائق (6/ 7) میں ہے:( وجاز الثني من الكل والجذع من الضأن ) لقوله عليه الصلاة والسلام { لا تذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن }
(3)رد المحتار (26/ 262) میں ہے:( قوله وندب إلخ ) قال في البدائع : والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقربائه وأصدقائه ويدخر الثلث ؛ ويستحب أن يأكل منها ، ولو حبس الكل لنفسه جاز لأن القربة في الإراقة والتصدق باللحم تطوع.
(3)اعلاء السنن ( ۱۷/۱۱۷) میں ہے:وأنه یستحب الاکل منها والإطعام والتصدق کما فی الاضحية.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved