• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عقیقہ کے حکم کا فلسفہ اور نومولود کا گروی ہونا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماءکرام ا س مسئلہ کے بارے میں کہ:

(1) عقیقہ کا فلسفہ کیا ہے؟

(2)کیا یہ صدقہ کی قبیل سے ہے یا دعوت کی قبیل سے؟ مسئلہ یہ ہے کہ عقیقہ میں ہم اپنے رشتہ داروں کو دعوت دیتے ہیں لیکن وہ سب کھاتے پیتے لوگ ہیں۔

(3) کیا جو ذیل میں حدیث ہے ، بچے کی حفاظت والا فائدہ رشتہ داروں کو دعوت کھلادینے سے حاصل ہوجائے گا یا یہ فضیلت گوشت غرباء میں تقسیم کردینے سے ہی ملے گی یا جتنا حصہ غربا ء میں تقسیم کیا اتنی ہی حفاظت ہوگی؟

ابن ماجہ (رقم الحدیث : 3165) میں ہے: ہر لڑکا اپنے عقیقہ میں گروی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) عقیقہ کا فلسفہ یہی ہے کہ عقیقے کی برکت سے بچہ آفات و بليات سے محفوظ ہوجاتا ہے۔

(2)عقیقہ  نہ صدقہ کی قبیل سے ہے اور نہ دعوت کی قبیل سے،  بلکہ یہ قربانی کی قبیل سے ہے اس لیے عقیقہ کے جانور میں بھی وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور میں ہیں لہذا عقیقہ تو جانور ذبح کردینے سے ہی ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ قربانی ذبح کردینے سے ہی ہوجاتی ہے۔ باقی رہا عقیقہ  کےجانور کا گوشت  تو اس بارے میں وہی تفصیل ہے جو قربانی کے جانور کے گوشت کے بارے میں ہے یعنی بہتر یہ ہے کہ اس کے تین حصے  کیے جائیں (۱) اپنے لیے (۲)عزیز و اقارب کے لیے (۳) غریب غرباء کے لیے ۔ اب عزیز  و اقارب اور غریب غرباء کا حصہ انہیں کچے گوشت کی شکل میں دیں یا گھر بلا کر دعوت کریں دونوں درست ہیں۔

(3) مذکورہ فائدہ صرف جانور ذبح کردینے سے ہی حاصل ہوجائے گا، یہ فائدہ دعوت کرنے یا کچا گوشت تقسیم کرنے پر موقوف نہیں۔

الابواب والتراجم  لصحیح البخاری (6/ 41) میں ہے:

قال العيني: وفي “التوضيح”: وإماطة الأذى عن الصبي: حلق الشعر الذي على رأسه، انتهى وفي هامش اللامع: واختلفوا في مصداق الأذى؟…والأوجه عند هذا العبد الضعيف – عفا الله تعالى عنه – أن المراد بالأذى البلايا المتعلقة بالمولود، قال القاري في شرح قوله – صلى الله عليه وسلم -: الغلام مرتهن بعقيقته يعني: أنه ‌محبوس ‌سلامته عن الآفات بها، انتهى»

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح (7/ 2687) میں ہے:

«(وعن الحسن) أي البصري – رضي الله عنه – (عن سمرة) أي ابن جندب – رضي الله عنه – قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – الغلام مرتهن) : بضم الميم وفتح الهاء أي مرهون بعقيقته: يعني أنه ‌محبوس ‌سلامته عن الآفات بها….

حاشية ابن عابدين (6/ 336) میں ہے:

«يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي، ‌وهي ‌شاة ‌تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك»

تحفۃ المودود بأحكام المولود (ص:65) میں ہے:

الفصل التاسع في بيان أن العقيقة افضل من التصدق بثمنها ولو زاد….فكان ‌الذبح ‌في ‌موضعه أفضل من الصدقة بثمنه ولو زاد كالهدايا والأضاحي فإن نفس الذبح وإراقة الدم مقصود فإنه عبادة مقرونة بالصلاة كما قال تعالى {فصل لربك وانحر}….

تحفۃ المودود بأحكام المولود (ص70)میں ہے:

«‌ويستحب ‌فيها ما يستحب في الأضحية من الصدقة وتفريق اللحم»

اوجز المسالک (1/221) میں ہے:

(قال مالك:الأمر عندنا في العقيقة أن: من عق فإنما يعق عن ولده بشاة شاة الذكور والإناث…. وياكل اهلها من لحمها ويتصدقون منها) قال الموفق: وسبيلها في الأكل والهدية والصدقة سبيل الاضحية الا انها تطبخ اجدالا

امداد الفتاویٰ(4/250) میں ہے:

اس کی نظیر فقہاء کے کلام میں یہ ہے کہ عقیقہ کے احکام مثل قربانی کے لکھے ہیں حالانکہ عقیقہ واجب نہیں (۱) بلکہ خود قربانی ہی اگر نفل ہو اس کے بھی وہی احکام وشرائط ہیں جو واجب کے ہیں ۔۔۔

کفایت المفتی (8/243):

سوال : زید اپنی لڑکی کا عقد اور لڑکے کا عقیقہ کرنا چاہتا ہے اور تاریخ مقرر ہے زید کا ارادہ ہے کہ عقیقہ کا سارا گوشت مہمانوں کی دعوت میں خرچ  کرے یہ جائز ہے یا نہیں ؟

جواب :  عقیقہ  کا گوشت ایک تہائی مساکین کو تقسیم  کردینا افضل ہے باقی دو تہائی اقربا و احباب کی ضیافت میں خرچ کیا جاسکتا ہے اگر تمام گوشت بھی ضیافت میں خرچ کردیا جائے تاہم عقیقہ ہوجائے گا  اگرچہ یہ خلاف افضل ہے۔

مسائل بہشتی زیور (1/478) میں ہے:

مسئلہ: جس کے یہاں کوئی لڑکا یا لڑکی پیدا ہو تو مستحب ہے کہ ساتویں دین اس کا نام رکھ دے اور عقیقہ کردے۔ عقیقہ کرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بچے سے بلائیں دور ہوجاتی ہیں اور آفتوں سے حفاظت رہتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved