• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عورت کے مسلمان ہونے کی صورت میں نکاح کو فسخ کرنے کا طریقہ اور آگے نکاح

استفتاء

یہاں پاکستان میں ایک شادی شدہ عیسائی عورت نے اسلام قبول کیا، اور اگلے مہینے ایک مسلمان شخص سے شادی کر لی، نہ ہی اس عورت نے کافر شوہر کی عدت گذاری اور نہ ہی اس عورت کے کافر شوہر پر اسلام پیش کیا گیا۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل اشیاء کا شرعی حکم مطلوب ہے:

1۔ اس نکاح کو دو سال گذر چکے ہیں اور اس کے شوہر پر اب تک اسلام پیش نہیں کیا گیا، کیا یہ نکاح درست ہے؟ نہیں تو اب ہمارے لیے شرعی حکم کیا ہے، ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

2۔ کیا اس نو مسلم عورت کے لیے کافر شوہر کی عدت گذارنا ضروری ہے جیسا کہ مسلمان کی عدت گذارنا؟

3۔ کیا اس نو مسلم عورت کا نکاح کافر شوہر کے ساتھ موقوف رہے گا جب تک اس پر اسلام پیش نہ کر دیا جائے اور وہ اس کے قبول کرنے  سے انکار نہ کر دے۔

4۔ اگر شوہر پر اسلام پیش کیا جاتا ہے وہ قبول کرنے سے انکار نہیں کرتا بلکہ مہلت مانگتا ہے تو اسے کتنی مہلت دی جائے گی؟ آیا اگر وہ دو سال تک مہلت ہی مانگتا رہے تو کیا یہ نکاح موقوف ہی رہے گا؟

5۔ موجودہ دور میں جب اسلامی قضاء کا نظام نہیں ہے تو اسلام کون پیش کرے گا اور اس کی صورت کیا ہو گی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1، 2، 3۔ جو عورت کسی کافر کے نکاح میں ہو اور وہ عورت مسلمان ہو جائے تو اس عورت کے اس کافر شوہر کے نکاح سے نکلنے کے لیے اور آگے کسی مسلمان سے نکاح کرنے کے لیے مندرجہ ذیل امور ضروری ہیں:

i۔ عدالت اس کے شوہر پر اسلام پیش کرے پھر شوہر اگر انکار کرے یا سکوت اختیار کرے تو عدالت اس نکاح کو فسخ کر دے۔

ii۔ عدالت کے نکاح کو فسخ کر دینے کے بعد عورت اپنی عدت گذار نے کے بعد آگے کسی مسلمان مرد سے نکاح  کر سکتی ہے۔

جبکہ مذکورہ صورت میں ان باتوں میں سے کوئی بات نہیں پائی گئی، لہذا یہ نکاح جائز نہیں اور یہ عورت بدستور سابقہ شوہر کے نکاح میں ہے۔

و إذا أسلم أحد الزوجين المجوسيين أو امرأة الكتابي (في دار الإسلام) عرض الإسلام علی الآخر فإن أسلم فبها و إلا بأن أبی أو سكت فرق بينهما و ما لم يفرق القاضي فهو زوجته. (رد و در المحتار: 3/ 189، هندية: 1/ 338)

و التفريق بينهما طلاق ينقص العدد لو أبی قال في البحر و أشار بالطلاق إلی وجوب العدة عليها إن كان دخل بها، لأن المرأة إن كانت مسلمة فقد التزمت أحكام الإسلام و من حكمه وجوب العدة عليها. (رد المختار: 3/ 189)

و لا يقع بينهما فرقة حتی يعرض عليه الإسلام. (كتاب الحجج: 353)

4، 5۔ اب آپ کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ اس عورت کا مقدمہ عدالت میں پیش کریں اور عدالتی نظام نہ ہو تو مسلمانوں کا ایک بورڈ بنایا جائے جو کم از کم تین افراد پر مشتمل ہو اور ان میں ایک عالم دین بھی ہو اور اس بورڈ میں عورت کا مقدمہ پیش کیا جائے پھر عدالت یا بورڈ شوہر پر اسلام پیش کرے اگر وہ بھی مسلمان ہو جائے تو ان دونوں کے نکاح کو بر قرار رکھا جائے اور اگر وہ انکار یا سکوت اختیار کرے تو عدالت یا بورڈ اس نکاح کو فسخ کر دے اور اس کے بعد عورت عدت گذارے اور عدت گذارنے کے بعد آگے نکاح کرنا چاہے تو نکاح کرے۔

4۔ چار ماہ تک کہ مہلت دی جا سکتی ہے۔

مالك عن ابن شهاب أنه بلغه أن نسائكن في عهد رسول الله صلی الله عليه و سلم يسلمن بأرضهن و هن غير مهاجرات و أزواجهن حين أسلمن كفار منهن بنت الوليد بن المغيرة و كانت تحت صفوان بن أمية فأسلمت يوم الفتح و هرب زوجها (الی أن قال) و دعاه رسول الله صلی الله عليه و سلم الی الإسلام و أن يقدم عليه فإن رضي امرا قبله و إلا سيره شهرين فلما قدم صفوان …… فقال يا محمد! إن هذا وهب بن عمير جاءني بردائك و زعم أنك دعوتني إلی القدوم عليك فإن رضيت امرا قبلته و إلا سيرتني شهرين، فقال رسول الله صلی الله عليه و سلم بل لك تسيير أربعة اشهر …. فشهد حنينا و الطائف و هو كافر و امرأته مسلمة و لم يفرق رسول الله صلی الله عليه و سلم بينه و بين امرأته حتی أسلم صفوان و استقرت امرأته بذلك النكاح. (اوجز المسالك: 9/ 500، مؤطأ إمام مالك: 197)

(استدل المخالفون بهذا الحديث علی مذهبهم بأن امرأة صفوان أسلمت و لم يسلم زوجها إلا بعد شهر و قرر رالنبي صلی الله عليه و سلم نكاحهما السابق و لم يفرق بينهما فعلم منه أن سبب الفرقة مضي ثلاث حيض و العرض أي عرض الإسلام ليس سبباً للفرقة، لأن العرض لو سبباً للفرقة فبعد العرض إباء و إقرار، ففي صورة الإباء التفريق بينهما واجب و صورة الإقرار لم توجد: ناقل) فقال العلامة ظفر أحمد العثماني نور الله مرقده: و لا يعارضه (أي لا يعارض هذا الحديث: مالك عن ابن شهاب الی آخره، قولنا في المرأة اللتي أسلمت و زوجها كافر في دار الإسلام لا تقع بينهما فرقة حتی يعرض علي الإسلام فإن أسلم فبها و إن أبی أن يسلم أو سكت فرق بينهما، كما هو مذكور في عامة كتب الفقه: ناقل العاجز) فإن مكة كانت دار الإسلام إذ ذاك فلا تجب البينونة إلا بعرض الإسلام علی زوجها و لما عرض عليه أي صفوان الإسلام لم يأب و لم، بل طلب المهلة، فأجله النبي صلی الله عليه و سلم و نحن لا نقول بوجوب البينونة إلا بالإباء بعد العرض، دون الاستمهال.

تذييل: و كان بين إسلامهما نحو من شهر. (إعلاء السنن: 11/ 101)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved