- فتوی نمبر: 34-109
- تاریخ: 20 اکتوبر 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > ضبط ولادت و اسقاط
استفتاء
ہمارے ہاں عموماً دیندار اور پڑھے لکھے لوگ بھی اولاد کے درمیان اس وجہ سے وقفہ کرتے ہیں کہ (1) ابھی پہلا بچہ چھوٹا ہے یا(2) عورت کو عام کمزوری ہے یا(3) بچے زیادہ ہوں تو انکو تربیت کے حوالے سے سنبھالنا مشکل ہوتا ہے ایسے اعذار کی وجہ سے اولاد کے درمیان وقفہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ اعذار کی وجہ سے اولاد کے درمیان وقفہ کرنا جائز ہے۔
شامی (3/163) میں ہے:
ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل
امداد الفتاوی (9/250)میں ہے:
سوال: میں جن صاحب کے یہاں معالج ہوں وہ لا ولد ہیں، جب پہلی بیوی سے کچھ اولاد نہ ہوئی تو باصرار والدین دوسری شادی کی ، لیکن طبیعت اُس سے مانوس نہیں ، اب اس دوسری بیوی کو دو ماہ کا حمل ہے، اُن صاحب کی فرمائش ہے کہ ایسی کوئی ترکیب ہو کہ اس کا حمل گر جائے، اگر ہو تو اولاد پہلی سے ہو، بندہ نے اب تک کچھ جواب اُن کو نہیں دیا۔ حضور ارشاد فرمائیں کہ دو ماہ کا حمل گرانا جائز ہے یا نہیں؟ یا آئندہ کے لئے کوئی ایسی تدبیر کر دینا کہ مانع حمل ہو جائز ہے یا نہیں؟ یہ بھی ارشاد ہو کہ بعض عورتیں جسم کی کمزور ہوتی ہیں اور بچے بہت جلد جلد ہوتے ہیں، اس سے اُن کی بھی تندرستی خراب ہو جاتی ہے، اور بچے بھی دودھ خراب ہونے سے دائم المرض ہو جاتے ہیں، اس صورت میں دوائے مانع حمل کھانا جائز ہے یا نہیں؟ آئندہ کے لیے کوئی ایسی تدبیر کر دینا کہ مانع حمل ہو جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: في الدر المختار: ويكره أن تسعى لإسقاط حملها وجاز لعذر حيث لا يتصور في رد المحتار قوله : ويكره الخ: أي مطلقا قبل التصور وبعده على ما اختاره في الخانية كما قدمناه قبيل الاستبراء، وقال: إلا أنها لا تأثم إثم القتل قوله: وجاز لعذر كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل وانقطع لبنها، وليس لأب الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاك الولد قالوا يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له عضو، وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يوما، وجاز لأنه ليس بآدمي وفيه صيانة الآدمي خانية قوله حيث لا يتصور قيد لقوله، وجاز لعذر والتصور كما في القنية أن يظهر له شعر أو إصبع أو رجل أو نحو ذلك.
روایات مرقومہ سے معلوم ہوا کہ صورت مسئولہ میں اگر تحقیق فن سے حمل میں جان پڑ نا محتمل ہو تب تو مطلقا حمل گرانا حرام اور موجب قتل نفس زکیہ ہے، اور اگر جان نہیں پڑی سواگر کوئی عذر صحیح ہوتا تو اسقاط جائز تھا؟ لیکن چونکہ کوئی عذر نہیں ہے اور یہ امر کہ نفس نہیں گوارا کرتا کہ پہلی کے اولاد نہ ہو اور دوسری کے ہو جائے، یہ شرعا عذر مقبول نہیں ، لہذا یہ فعل نا جائز ہوگا، گو قتل کا سا گناہ نہیں، مگر خود یہ فعل بھی معصیت ہےاور آئندہ کے لیے حمل قرار نہ پانے کی تدبیر کرنا بھی بلا عذر مذموم ہے مگر وہ ملامت میں کم ہے خلاصہ یہ کہ سب میں اشد حمل حیّ کا اسقاط ہے اور اس سے کم حمل غیر حیّ کا اسقاط اور اس سے کم مانع حمل کا استعمال۔ البتہ عذر مقبول سے دو امر آخر کے جائز ہیں اور امر اول ہر حال میں حرام ہے اور مسئلہ ثانیہ میں چونکہ عذر صحیح ہے اس لیے دوا مانع حمل کھانا جائز ہے۔
احسن الفتاوی (8/347)میں ہے:
سوال: ضبط تولید اور اسقاط حمل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ مفصل جواب مرحمت فرما کر ممنون فرمائیں۔
جواب: ضبط تولید اور اسقاط حمل دونوں کی مجموعی طور پر کل چار صورتیں بنتی ہیں۔
(1) قطع نسل یعنی کوئی ایسی صورت اختیار کرنا جس کی وجہ سے دائمی طور پر قوت تولید ختم ہوجائے ۔
(2) منع حمل یعنی ایسی صورت اختیار کرنا کہ قوت تولید باقی رہتے ہوئے حمل قرار نہ پائے۔
(3) حمل ٹھہر جانے کے بعدچار ماہ پورے ہونے سے پہلے کسی ذریعہ سے اس کو ساقط کرنا ۔
(4) چار ماہ گزرنے کے بعد حمل گرانا۔
پہلی صورت بالاتفاق حرام ہے، خواہ اس میں کتنے ہی فوائد نظرآئیں اور خواہ اسکے دواعی بظاہر کتنے ہی قوی ہوں۔
دوسری صورت کے حکم میں تفصیل یہ ہے کہ بلا عذر یہ صورت اختیار کرنا مکروہ تنزیہی ہے اور درج ذیل اعذار کی صورت میں بلا کراہت جائز ہے (۱)عورت اتنی کمزور ہے کہ بار حمل کا تحمل نہیں کر سکتی۔ (۲)عورت اپنے وطن سے دور کسی ایسے مقام میں ہیں جہاں اس کا مستقل قیام و قرار کا ارادہ نہیں اور سفر کسی ایسے ذریعے سے ہے کہ اس میں مہینوں لگ جاتے ہیں(۳) زوجین کے باہمی تعلقات ہموار نہ ہونے کی وجہ سے علیحدگی کا قصد ہیں(۴) پہلے سے موجود بچے کی صحت خراب ہونے کا شدید خطرہ ہے(۵) یہ خطرہ ہو کہ فساد زمانہ کی وجہ سے بچہ بد اخلاق اور والدین کے رسوائی کا سبب ہوگا اگر کوئی ایسی غرض کے تحت حمل روکے جو اسلامی اصول کے خلاف ہے تو اس کا عمل بالکل ناجائز ہوگا مثلا کثرت اولاد سے تنگی کا خیال ہو یا وہم ہو کہ بچی پیدا ہوگی تو عار ہوگا۔
فقہ اسلامی ، مؤلفہ حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحدصاحبؒ (ص:80) میں ہے:
منع حمل (Contraception)
یعنی کوئی ایسا طریقہ اختیا رکرنا کہ حمل نہ ٹھہرے خواہ اس کے لیے عورت گولیاں کھائے یا انجکشن لگوائے یا رحم میں چھلا رکھوائے یا مرد اپنے عضو پر غبارہ (Condom) چڑھالے۔
حکم : خاص خاص ضرورتوں کے تحت شخصی و انفرادی طور پر ایسا کرنا جائز ہے مثلا
i-عورت اتنی کمزور ہے کہ حمل کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی ۔
ii- عورت کسی دور دراز کے سفر میں ہے یا دور کے پر مشقت سفر مثلا حج کا قصد ہے۔
iii- زوجین کے باہمی تعلقات ہموار نہیں اور علیحدگی کا قصد ہے۔
ان سب اعذار کا خلاصہ یہ ہے کہ شخصی اور انفرادی طور پر کسی شخص کو عذر پیش آجائے تو عذر کی حد تک اس طرح کا عمل بلا کراہت جائز ہوگا ۔ بغیر عذر کے محض اس خیال سے کہ بچہ نہ ہو یہ عمل مکروہ تنزیہی ہے اور اسی طرح عذر دور ہو جانے کے بعد بھی اس پر مداومت مکروہ تنزیہی ہے۔ اگر کوئی ایسی غرض یا ایسا خود ساختہ عذر ہو جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہو تو یہ عمل مکروہ تحریمی اور ناجائز ہوگا مثلاً :
i-اگر لڑکی ہوگئی تو بدنامی ہوگی۔
ii -مفلسی کا ڈر ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved