- فتوی نمبر: 21-307
- تاریخ: 11 مئی 2024
- عنوانات: عبادات
استفتاء
میری عمر تقریباً 60 سال ہے، پیشاب کا مسئلہ بھی ہے اس لیے ٹشو رکھ لیتی ہوں۔ اب کچھ دنوں سے ایسا ہے کہ خون لگا رہتا ہے۔ ہلکا ہلکا سا سرخ رنگ کا، ہر وقت نہیں بس کبھی کبھی۔ لیکن اگر ٹشو نہ رکھوں تو کپڑے پر کوئی نشان نہیں ہوتا۔ یہ مسئلہ پچھلے سترہ دنوں سے ہے، ایک دن دھبہ لگ جاتا ہے، پھر دو تین دن کے بعد لگتا ہے۔
نوٹ: ماہواری کا رنگ بھی سرخ تھا۔ نیز چونکہ سائلہ اندر ٹشو رکھتی ہے اور ٹشو سے زخم بھی ہو جاتا ہے، اس لیے یہ بھی احتمال ہے کہ یہ جو خون کے دھبے لگ رہے ہیں وہ زخم کی وجہ سے لگ رہے ہوں۔ نیز تقریباً پندرہ سال سے حیض کا خون بند ہے، اب پندرہ سال کے بعد مذکورہ صورت حال پیش آئی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جب پندرہ سال سے حیض کا خون بند ہے اور اب صرف خون کا ایک آدھا دھبہ لگتا ہے اور وہ بھی ایک دو دن بعد ، تو یہ دوبارہ دھبے حیض کا خون شمار نہ ہو ں گے بلکہ استحاضہ شمار ہوں گے، لہذا ان دھبوں کی وجہ سے مذکورہ عورت نماز وغیرہ نہ چھوڑے گی۔
بدائع الصنائع (1/ 41) میں ہے:
وأما وقته فوقته حين تبلغ المرأة تسع سنين فصاعدا عليه أكثر المشايخ فلا يكون المرئي فيما دونه حيضا وإذا بلغت تسعا كان حيضا إلى أن تبلغ حد الإياس على اختلاف المشايخ في حده ولو بلغت ذلك وقد انقطع عنها الدم ثم رأت بعد ذلك لا يكون حيضا وعند بعضهم يكون حيضا وموضع معرفة ذلك كله كتاب الحيض.
رسائل ابن عابدین (83-84) میں ہے:
(وأما انتهاء الحيض) …. (فببلوغها سن الإياس) …. (وهو) أي سن الإياس (في الحيض) … (خمس و خمسون سنة) … (فإن رأت بعده ) أي بعد هذا السن (دماً خالصاً) كالأسود والأحمر القاني
خمس و خمسون سنة) … (فإن رأت بعده ) أي بعد هذا السن (دماً خالصاً) كالأسود والأحمر القاني (نصاباً فحيض) قال صدر الشريعة وهو المختار، وفي المحيط: قال بعضهم لا يكون حيضاً وجعله صدر الشريعة ظاهر الرواية، وقال بعضهم إن حكم بالإياس فليس بحيض وإلا فحيض، وفي الحجة وهو الصحيح… الخ.
فتاویٰ عالمگیری (1/ 36) میں ہے:
وهو دم من الرحم لا لولادة كذا في فتح القدير فإن رأته من الدبر لا يكون حيضا ويستحب أن تغتسل عند انقطاع الدم كذا في الخلاصة ويتوقف كونه حيضا على أمور منها الوقت وهو من تسع سنين إلى الإياس هكذا في البدائع الإياس مقدر بخمس وخمسين سنة وهو المختار كذا في الخلاصة وهو أعدل الأقوال كذا في المحيط وعليه الاعتماد كذا في النهاية والسراج الوهاج وعليه الفتوى هكذا في معراج الدراية فما رأت بعدها لا يكون حيضا في ظاهر المذهب والمختار أن ما رأته إن كان دما قويا كان حيضا كذا في شرح المجمع لابن الملك.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved