- فتوی نمبر: 29-323
- تاریخ: 05 جولائی 2023
- عنوانات: عبادات > نماز > امامت و جماعت کا بیان
استفتاء
عورتوں کے لئے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟اور کہیں سفر پر ہوں اور عورتوں کے لئےپردے میں الگ مسجد کا انتظام ہوتو کیا پھر جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہیں؟اسی طرح جمعہ کی نماز کے بارے میں بھی بتادیجئے کہ جمعہ کی نماز پڑھنا عورت کےلئے کیسا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
موجودہ زمانے میں عورتوں کے لئے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئےاپنے گھروں سے نکلنا درست نہیں تاہم اگر وہ کسی جائز ضرورت سے گھر سے نکلی ہوئی ہوں اور اسی دوران نماز کا وقت ہوجائے اور پردے کا انتظام بھی ہوتو ایسی صورت میں عورتیں مردوں کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہیں تاہم اس صورت میں بھی ان کے لئے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ضروری نہیں یہی حکم جمعہ کی نماز کا ہےکہ جمعہ کی نماز میں شرکت کے لئےگھروں سے نکلنا جائز نہیں تاہم سفر میں پردے کے انتظام کے ساتھ جمعہ کی نماز میں شرکت کی صورت بن جائے تو جمعہ کی نماز پڑھنا درست ہے۔
ہندیہ(1/85)میں ہے:
إمامة الرجل للمرأة جائزة إذا نوى الإمام إمامتها ولم يكن في الخلوة.
تنوير الابصار مع الدر الختار(2/367)میں ہے:
(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقا) ولو عجوزا ليلا (على المذهب) المفتى به لفساد الزمان.
فتح القدير (1/ 365)میں ہے:
وقد قالت عائشة – رضي الله عنها – في الصحيح: لو أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – رأى ما أحدث النساء بعده لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل، على أن فيه ما رواه ابن عبد البر بسنده في التمهيد عن عائشة – رضي الله عنها – ترفعه «أيها الناس انهوا نساءكم عن لبس الزينة والتبختر في المساجد، فإن بني إسرائيل لم يلعنوا حتى لبس نساؤهم الزينة وتبختروا في المساجد» وبالنظر إلى التعليل المذكور منعت غير المزينة أيضا لغلبة الفساق، وليلا وإن كان النص يبيحه لأن الفساق في زماننا كثر انتشارهم وتعرضهم بالليل، وعلى هذا ينبغي على قول أبي حنيفة تفريع منع العجائز ليلا أيضا، بخلاف الصبح فإن الغالب نومهم في وقته، بل عمم المتأخرون المنع للعجائز والشواب في الصلوات كلها لغلبة الفساد في سائر الأوقات.
الاختیار لتعلیل المختار (1/59)میں ہے:
قال: (ويكره للنساء حضور الجماعات) لقوله عليه الصلاة والسلام : «بيوتهن خير لهن» ولما فيه من خوف الفتنة وهذا في الشواب بالإجماع. أما العجائز فيخرجن في الفجر والمغرب والعشاء. وقال: يخرجن في الصلوات كلها لوقوع الأمن من الفتنة في حقهن. وله أن الفساق ينتشرون في الظهر والعصر وفي المغرب يشتغلون بالعشاء، وفي الفجر والعشاء يكونون نياما، ولكل ساقطة لاقطة، والمختار في زماننا أن لا يجوز شيء من ذلك لفساد الزمان والتظاهر بالفواحش.
کفایت المفتی(3/292)میں ہے:
(سوال ) کیا آج کل عورتوں کو تلقین کرنا کہ وہ جمعہ کو آکر جماعت میں شریک ہوں اور ان کے لئے ایک مسجد کے حصہ میں عمارت تعمیر کرانا جائز ہے یا نہیں ؟
(جواب) عورتوں کو جمعہ کی نماز میں شرکت کی ترغیب و تلقین اس حدیث کے خلاف ہے ۔
عن ابی عمرو الشیبانی انه رای عبدالله یخرج النساء من المسجد یوم الجمعة ویقول اخرجن الیٰ بیوتکن خیر لکن (رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ موثقون کذافی مجمع الزوائد)
یعنی ابو عمرو شیبانی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو دیکھا کہ جمعہ کے روز عورتوں کو مسجد سے نکالتے تھے اور فرماتے تھے کہ اپنے گھروں کو جاؤ یہ تمہار ے لئے بہتر ہے ۔
یعنی عورتوں کے لئے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں جانے اور جمعہ پڑھنے سے بہتر ہے‘ صحابہ کرامؓ کے زما نہ کا طرز عمل یہ تھا پھر آج فتنہ و فساد کے زمانہ میں اس کے خلاف مسجد میں آنے کی ترغیب دینا ظاہر ہے کہ غلط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved