• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عورتوں سےمشورہ کرنا

  • فتوی نمبر: 3-187
  • تاریخ: 03 جون 2010

استفتاء

بندہ نے ایک حدیث پڑھی جس میں عورتوں سے مشورہ کرنےکی ممانعت ہے ۔سوال یہ ہے کہ یہ ممانعت کن امور کے بارے میں ہے؟ بہت سے گھریلو امور ایسے ہیں جن میں  عورتوں سے مشورہ کرنا پڑتاہے اور وہ کوئی اچھی رائے بھی دے دیتی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حدیث میں ممانعت اس بات کی ہے کہ برے بھلے اور نفع ونقصان سے قطع نظر محض عورت کی رضا اور خوشنودی کے لیے اس سے مشورہ کیا جائے اور اپنے معاملات اس کے سپرد کردیئے جائیں ورنہ وہ امور جو عورتوں سے متعلق ہیں ان میں  عورتوں سے مشورہ کرنا نہ صرف مستحسن بلکہ ضروری ہے۔

مفتی شفیع صاحب معارف القرآن میں لکھتے ہیں:

” اور ایک حدیث میں ہے کہ جب تمہارے حکمران تم میں بہترین آدمی ہوں اور تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات آپس میں مشورے سے طے ہواکریں تو زمین کے اوپر رہنا تمہارے لیے بہترہے۔اور جب تمہارے حکام بدترین افراد ہوں اور تمہارے مالدار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو زمین میں دفن ہوجاناتمہارے زندہ رہنے سے بہتر ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم پرخواہش پرستی غالب آجائے کہ بھلے برے اور نافع ومضر سے قطع نظر کرکے محض عورت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے معاملات اس کے سپرد کردو تو اس وقت کی زندگی سے تمہارے لیے موت بہتر ہے ورنہ مشورہ میں کسی عورت کی بھی رائے لینا کوئی ممنوع نہیں۔ رسول اکرمﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے تعامل سے ثابت ہے ۔ اور قرآن میں سورہ بقرہ کی آیت جو ابھی بیان کی گئی ہے اس میں ارشاد ہے” عن تراض منهما وتشاور” یعنی بچہ کا دودھ چھڑانا باپ اور ماں کے باہمی مشورے سے ہونا چاہیے۔ اس میں معاملہ چونکہ عورت سے متعلق ہے اس لیے خاص طور سے اس میں عورت کے مشورے کا پابند کیا گیاہے”۔(معارف القرآن،ص:219،ج:2) ۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved