• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عورتوں کا ڈرائیونگ کرنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ہمارا تعلق ایک متوسط کاروباری گھرانے سے ہے اور گھروں میں عام طور سے ڈرائیور کی ضرورت ہوتی ہے اور ڈرائیور تقریبا بیس ہزار روپے ماہانہ پڑتا ہے جو کہ مشکل ہوتا ہے ۔ہمارے خاندان میں مستورات گاڑی چلانا سیکھ رہی ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم خود ہی گاڑی چلالیا کریں گی اور ان کے کہنے کے مطابق خود گاڑی چلانے میں مردوں سے واسطہ نہیں پڑتا ۔اس مسئلہ میں برائے مہربانی رہنمائی فرمادیجئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عورتیں اگر شرعی پردے کا لحاظ کرتے ہوئے ڈرائیونگ کریں تو بوقت مجبوری اس کی گنجائش ہے۔ تاہم مسلمانوں کے معاشرے میں عورتوں کی ڈرائیونگ کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور جس چیز کو مسلمانوں کا معاشرہ معیوب سمجھے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی معیوب ہوتی ہے۔ نیز بعض اوقات عورتوں کی ڈرائیونگ کی صورت میں ناخواشگوار واقعات بھی پیش آجاتے ہیں۔ اس لیے عورتوں کی ڈرائیونگ کو مجبوری کے حالات تک ہی محدود رکھنا چاہیے بالخصوص وہ حضرات جو دینی حوالے سے ایک خاص شناخت رکھتے ہیں۔

فتاویٰ شامی: (6/423) میں ہے:

لا تركب مسلمة على سرج الحديث هذا لو للتلهي ولو لحاجة غزو أو حج أو مقصد ديني أو دنيوي لا بد لها منه فلا بأس به.

فتاویٰ شامی: (3/256) میں ہے:

قوله: (والفرج) عبر به عن الكل في حديث: لعن الله الفروج على السروج قال في الفتح: إنه حديث غريب جدا.

فتاویٰ شامی: (6/423) میں ہے:

( قوله للحديث ) وهو ” {لعن الله الفروج على السروج} ” ذخيرة . لكن نقل المدني عن أبي الطيب أنه لا أصل له ا هـ . يعني بهذا اللفظ وإلا فمعناه ثابت ، ففي البخاري وغيره ” لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال” وللطبراني ” أن امرأة مرت على رسول الله صلى الله عليه وسلم متقلدة قوسا فقال : لعن الله المتشبهات من النساء بالرجال والمتشبهين من الرجال بالنساء.

المحيط البرهانی (10/ 199)

«لعن الله الفروج على السروج» والمعنى في النهي من وجهين؛ أحدهما: أن هذا تشبه بالرجال، وقد نهين عن ذلك، الثاني: أن فيه إعلان الفتن وإظهارها للرجال، وقد أمرن بالستر، قالوا: وهذا إذا كانت شابة، وقد ركبت السرج والفرج، فأما إذا كانت عجوزاً أو كانت شابة إلا أنها ركبت مع زوجها بعذر بأن ركبت للجهاد، وقد وقعت الحاجة إليهن للجهاد، أو للحج أو للعمرة فلا بأس إن كانت مستترة، فقد صح أن نساء المهاجرين كنَّ يركبن الأفراس، ويخرجن للجهاد، فكان رسول الله عليه السلام يراهن و(لا) ينهاهن، وكذلك بنات خالد بن الوليد كن يركبن، ويخرجن للجهاد يسقين المجاهدين في الصفوف ويداوين الجرحى.

مسند أحمد (6/ 84، رقم الحديث: 3600)

حدثنا أبو بكر حدثنا عاصم عن زر بن حبيش عن عبد الله بن مسعود قال إن الله نظر في قلوب العباد فوجد قلب محمد صلى الله عليه وسلم خير قلوب العباد فاصطفاه لنفسه فابتعثه برسالته ثم نظر في قلوب العباد بعد قلب محمد فوجد قلوب أصحابه خير قلوب العباد فجعلهم وزراء نبيه يقاتلون على دينه فما رأى المسلمون حسنا فهو عند الله حسن وما رأوا سيئا فهو عند الله سيئ.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved