• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ایام عادت سے پہلے دھبہ لگنے کا حکم

استفتاء

میری عمر اڑتالیس سال ہے۔ میرے حیض کے حقیقی دنوں سے پہلے دھبے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مثلاً صبح کو دھبا لگا تو شام کو نہیں لگے گا، پھر جب میری اصلی تاریخ آتی ہے تو پانچ چھ دن مسلسل معمول کے مطابق خون آتا ہے۔ مجھے ان دھبے لگنے والے دنوں کے درمیان کیا کرنا چاہیے؟ کیا میں نماز پڑھ سکتی ہوں؟ تلاوت کر سکتی ہوں؟

پچھلے مہینے مجھے یکم تاریخ کو دھبے لگنے شروع ہو گئے تھے۔ میرے ایام کی متوقع تاریخ دس تھی لیکن مجھے ساتھ تاریخ کو باقاعدہ خون آنا شروع ہو گیا تھا۔ اس مہینے چھ تاریخ کو پھر دھبے لگنا شروع ہو گئے، تیرہ تاریخ کو باقاعدہ خون آنا شروع ہوا اور چار دن تک جاری رہا۔

وضاحتیں: 1۔ حقیقی دنوں سے مراد ایام عادت ہیں۔

2۔ ایک دن میں ایک سے زائد دھبے بھی لگ جاتے ہیں، کبھی دو سے تین اور کبھی صرف ایک اور پھر کئی گھنٹے کچھ بھی نہیں۔

3۔ اب اصلی تاریخ سے ایک ہفتہ پہلے یہ دھبوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

4۔ اصل تاریخ کے بعد پانچ چھ دن معمول کے مطابق خون آتا ہے۔

5۔ پچھلے خون کے مکمل ختم ہونے اور پھر دھبے لگنے کے درمیان پندرہ دن سے زیادہ کا فاصلہ ہو تا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ یہ دیکھیں کہ دھبہ لگنے کے دن سے لے کر ایام عادت شروع ہونے تک کل کتنے دن ہیں؟

اگر یہ دن اتنے ہوں کہ اگر ایام عادت کو بھی ان کے ساتھ ملائیں تو کل مجموعہ دس دن سے زیادہ ہو جائے۔ (مثلاً ایام عادت 6 دن ہیں اور ایام عادت سے 5 دن پہلے دھبے لگنے شروع ہو گئے، تو اس  صورت میں کل ایام کو اگر ملایا جائے تو مجموعہ 11 دن ہو گا۔)  تو اس صورت میں دھبہ لگنے کے ایام پاکی کے ایام شمار ہوں گے اور اس دوران نماز بھی پڑھنی پڑے گی، اور اس دوران تلاوت بھی کر سکتی ہیں۔

اور اگر کل مجموعہ دس دن یا اس سے کم ہو (مثلاً ایام عادت 6 دن ہیں اور ایام عادت سے 4-3 دن پہلے دھبے لگنے شروع ہو گئے تو اس صورت میں کل ایام کو اگر ملایا جائے تو مجموعہ 9 یا 10 دن ہو گا) تو اس صورت میں دھبہ لگنے کے ایام حیض یعنی ماہواری کے ایام شمار  ہوں گے اور اس دوران نماز معاف ہو گی اور تلاوت کرنا منع ہو گا۔

البتہ اگر یہ ایام بعد میں دس دن سے متجاوز ہو گئے  یعنی عادت کے موافق پاکی حاصل نہ ہوئی بلکہ بعد میں بھی خون آتا رہا (مثلاً ایام عادت سے 4 دن پہلے دھبے لگنے شروع ہوئے، اس کے لحاظ سے مجموعہ 10 دن بنتے تھے، لیکن چھٹے روز پاکی حاصل نہیں ہوئی، بلکہ  ساتویں روز پاکی حاصل ہوئی جس کی وجہ سے کل ایام گیارہ ہو گئے) تو پھر صرف ایام عادت ماہواری میں شمار ہوں گے، اور دھبے کے ایام میں جو نمازیں نہیں پڑھی گئیں تھی ان کی قضا کرنی پڑے گی۔

في منهل الواردين:

أو ابتدأ الدم قبلها أي قبل العادة فإنها تترك الصلاة كما رأته لاحتمال انتقال العادة إلا إذا كان الباقي من أيام طهرها ما لو ضم إلى حيضها جاوز العشرة۔ مثلاً امرأة عادتها في الحيض سبعة و في الطهر عشرون رأت بعد خمسة عشر من طهرها دما، تؤمر بالصلاة إلى عشرين لأن الظاهر أنها ترى أيضا في السبعة أيام عادتها فإذا رأت قبل عادتها خمسة يزيد الدم على العشرة و إذا زاد عليه ترد إلى عادتها فلا يجوز لها ترك الصلاة قبل أيام عادتها.

و لو رأت بعد سبعة عشر تؤمر بتركها من حين رأت لأن عادتها سبعة و قد رأت قبلها ثلاثة فلم يزد على العشرة فيحكم بانتقال العادة و لا ينظر إلى احتمال أن ترى أيضاً بعد أيام عادتها فترد إلى عادتها و تكون الثلاثة استحاضة لأنه احتمال بعيد فلذا تترك الصلاة فيها. (95- 94)

و في الشامية:

أما المعتادة فما زاد على عادتها و تجاوز العشرة في الحيض و الأربعين في النفاس يكون استحاضة.  (1/ 524)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved