- فتوی نمبر: 1-117
- تاریخ: 04 اگست 2006
- عنوانات: عقائد و نظریات > حدیث و سنت
استفتاء
اذان کے اوقات کے بارے میں کیا کوئی باقاعدہ احادیث ہیں۔اگر اذان وقت سے چند منٹ قبل ہی دی، تو حرج تو کوئی نہیں؟
نیز مروجہ دائمی اوقات نماز کی کیا حیثیت ہے۔ان کی پیروی ضروری ہے۔کیا ان اوقات کو زیر نظر رکھ کر اذان دی جا سکتی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اذان دینے کا مقصد بتانا ہوتا ہے کہ اب نماز کا وقت داخل ہو گیا ہے اگر کوئی نماز پڑھنا چاہتا ہے تو پڑھ سکتا ہے اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ اذان دینے والا شخص ایسا ہو جو نماز کے اوقات کی پہچان رکھتا ہو۔ وقت سے پہلے اذان دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ نماز بھی وقت سے پہلے پڑھی جا سکتی ہے جب کہ نماز اپنے وقت سے پہلے جائز نہیں۔اسی طرح وقت سے پہلے اذان دینے کا اثر سحری وافطاری پر بھی پڑے گا اسلئیے وقت سے پہلے اذان دینا جائز نہیں اور اگر وقت سے پہلے کبھی اذان دی جا چکی ہو تو اسے دوبارہ لوٹایا جائے۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
ان بلالا أذن ليلة بواد فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يرجع الي مقامه فينادي ان العبد نام فرجع۔ (اعلاء السنن: 2/ 132)
اور فتاوی عالمگیری میں ہے:
واهلية الاذان تعتمد بمعرفة القبلة والعلم بمواقيت الصلوة تقديم الاذان علي الوقت في غير الصبح لا يجوز اتفاقا وكذا في الصبح عند ابي حنيفة ومحمد وان قدم يعاد في الوقت(1/ 53)
آجكل عموما لوگ سورج اور ستاروں كو ديكھ كر نماز كے اوقات كو پہچاننے سے عاجز ہيں۔اسلئے ايسے لوگوں كيلئے مروجہ دائمی اوقات نماز كے قابل اعتبار واعتماد نقشوں كي پيروی ضروری ہے اور ان اوقات كو مد نظر ركہ کر اذان دی جائے۔ فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved