• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بالوں کو دفن کرنے ،بہانے ،جلانے اوربیچنے کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورتوں کے جو بال کنگھی وغیرہ کرنے سے گر جاتے ہیں ان بالوں کو شہر کے اندر زمین میں دبانا بھی بہت مشکل ہے اور قبرستان میں بھی دبانابہت مشکل ہے (1)کیا مجبورا جلائے جا سکتے ہیں ؟(2) کیا مجبورا نہر میں ڈبو(بہا)سکتے ہیں؟ (3)یا آج کل یہ بال بیچے جاتے ہیں کیا یہ بیچنا درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1ـ2)بالوں کو جلانا جائز نہیں ۔البتہ  نہر میں بہانا   ،یا کسی صاف جگہ میں  پھینکنا جہاں کسی  اجنبی مرد  کی  نظر نہ پڑے جائز ہے۔

(3)انسانی بالوں کی خرید و فروخت  جائز نہیں ہے۔

(1) فتاوی محمودیہ میں ہے۔ ( ج:19 ص:452)

سوال:انسان کے ناخن اور بال وغیرہ کو جلانا جائز ہے یا نہیں، اگر جائز نہیں تو شہری عورتوں کے جو بال کنگھی سے نکلتے ہیں ان کو مکانات پختہ ہونے کی وجہ سے دفن نہیں کر سکتی ان کے لیے کیا حکم ہے؟

الجواب:جلانا جائز نہیں۔ ایسی عورتیں کسی کپڑے یا کاغذ میں لپیٹ کر کہیں ڈال دیں۔

وفي الخانية ينبغي أن يدفن قلامة ظفره ومحلوق شعره وإن رماه فلا بأس وكره إلقاؤه في كنيف أو مغتسل لأن ذلك يورث داء وروي أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بدفن الشعر والظفر وقال لا تتغلب به سحرة بني آدم اهـ ولأنهما من أجزاء الآدمي فتحترم،”  طحطاوی(1/527)

(2)قال العلامة الحصکفي رحمه الله تعالی: “و کل عضو لا یجوز النظر إلیه قبل الانفصال، لا یجوز بعده و لا بعد الموت، کشعر عانة و شعر رأسها”. ( الشامی 9/612 )

(3)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (7/245)

“(وشعر الإنسان)؛ لكرامة الآدمي ولو كافرًا ذكره المصنف وغيره في بحث شعر الخنزير.

مطلب: الآدمي مكرم شرعًا ولو كافرًا(قوله: ذكره المصنف) حيث قال: والآدمي مكرم شرعًا وإن كان كافرًا؛ فإيراد العقد عليه وابتذاله به وإلحاقه بالجمادات إذلال له. اهـ أي وهو غير جائز وبعضه في حكمه، وصرح في فتح القدير ببطلانه

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved