- فتوی نمبر: 27-150
- تاریخ: 02 اکتوبر 2023
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی آدمی اپنی شادی شدہ بیٹی کے ساتھ زنا کی کوشش کرتا ہے تو کیا میاں بیوی دونوں کا نکاح باقی رہتا ہے یا ختم ہو جاتا ہے؟
وضاحت مطلوب ہے کہ:
سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟ باپ بیٹی دونوں کا بیان مطلوب ہے۔
جواب وضاحت: لڑکی میری بھانجی ہے۔
لڑکی کی والدہ کا بیان:
دارالافتاء کے نمبر سے رابطہ کیا گیا تو لڑکی کی والدہ نے لڑکی کو پاس بٹھا کر اس سے سب کچھ معلوم کر کے یہ بیان دیا:
’’پہلی مرتبہ 2016ء میں یہ واقعہ پیش آیا کہ میرے شوہر نے میری بیٹی کی قمیص اتار کر چھیڑ چھاڑ کی، کسی حائل کے بغیر سینے پر ہاتھ لگایا اور منہ پر بوسہ دیا، اس وقت بیٹی کی عمر گیارہ سال تھی اور وہ نابالغ تھی، پھر مسلسل کئی دن یہ واقعہ ہوتا رہا لیکن ڈر کی وجہ سے بچی نے کسی کو نہیں بتایا کیونکہ اس کے والد نے ڈرایا تھا کہ اگر ماں کو بتایا تو دونوں ماں بیٹی کو ماروں گا، اس کے کچھ عرصہ بعد بچی بالغ ہو گئی اور بلوغت کے بعد بھی میرے شوہر نے کئی مرتبہ بیٹی کی چھاتی پر بغیر کسی حائل کے ہاتھ لگایا، اور چھیڑ چھاڑ کی لیکن ہمبستری کبھی نہیں ہوئی، پھر بچی بیمار رہنے لگی تو جب ہم نے پوچھا تو اس نے سب کچھ بتا دیا، تب سے میرا شوہر گھر سے نکلا ہوا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ میری بیٹی سچ کہہ رہی ہے کیونکہ میرے شوہر نے محلے کی کچھ لڑکیوں کے ساتھ بھی ایسی حرکتیں کی ہیں، میں بچوں کی وجہ سے شوہر کے پاس رہنا چاہتی ہوں ، ہمارا نکاح باقی ہے یا نہیں؟
لڑکی کے والد کا بیان:
دارالافتاء کے نمبر سے رابطہ کیا گیا تو لڑکی کے والد نے مندرجہ ذیل بیان دیا:
’’میں نے بیٹی کے ساتھ ایسی کوئی حرکت نہیں کی ، مجھ پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: آپ تو رہنا چاہتی ہیں مگر اس بچی کی حفاظت کی گارنٹی کون دے گا؟
جواب وضاحت:اولاً تو بچی گھر جانا نہیں چاہتی، نانی کے گھر رہے گی، دوسری بات یہ کہ میں نے اپنے شوہر کی والدہ اور بہنوں سے بات کرلی ہے کہ میں اس شرط پر گھر آؤں گی کہ میرا شوہر گھر نہیں رہے گا، گھر سے باہر بیٹھک وغیرہ میں رہے گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں فقہ حنفی کے عام ضابطے کی رو سے تو حرمت مصاہرت ثابت ہو گئی ہے اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، البتہ موجودہ دور میں بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں بیوی شوہر پر حرام نہیں ہوئی اور بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے،اس کی تفصیل "فقہ اسلامی” مصنفہ ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب میں ہے، خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں بیٹی کا دعوی یہ ہے کہ اس کے والد نے بغیر کسی حائل کے اس کے سینے پر ہاتھ پھیراہے، اور والد اس واقعہ کا انکار کرتا ہے لیکن چونکہ لڑکی کی والدہ کو یقین ہے کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور سینے پر ہاتھ پھیرنے میں شہوت کا پایا جانا بھی شرط نہیں ہے، لہذا بیوی کے حق میں حرمت مصاہرت ثابت ہو گئی ہے۔
درمختار (4/121) میں ہے:
(وإن ادعت الشهوة) في تقبيله أو تقبيلها ابنه (وأنكرها الرجل فهو مصدق) لا هي (إلا أن يقوم إليها منتشرا) آلته (فيعانقها) لقرينة كذبه أو يأخذ ثديها (أو يركب معها) أو يمسها على الفرج أو يقبلها على الفم قاله الحدادي.
امدادالاحکام(2/778)میں ہے:
سوال: ایک شخص نے اپنے لڑکے کی عورت سے فعل بد کرنے کی نیت سے اپنے دل کا راز بیان کیا اور کسی وقت موقع پا کر اس عورت سے جو اس کے بیٹے کی زوجہ ہے اس کا ہاتھ پکڑا لیکن دل کی مراد پوری نہ کر سکا اور کتنی راتوں کو اس عورت کے بستر کو خالی پاکر اس کے بستر پر جا کر سویا اور اس کے بدن پر ہاتھ رکھا لیکن جب عورت مذکور نیند سے بیدار ہوئی فوراً اٹھ کر بھاگی اور اپنی حرمت وعزت کو بچائی کسی وقت وہ مرد اس کو اپنے قابو میں نہ لاسکا اور ایک بار اس عورت کو ان کے والد کے مکان سے لاتے وقت اسی مرد مذکور نے یعنی اس عورت کے خاوند کے والد نے راستہ میں اکیلا پاکر اس دن بھی اپنے دل کی باتیں بیان کیں اور بعض بعض دفعہ ہاتھ پکڑا لیکن عورت نے اپنی عزت بچائی اور مرد مذکور اس معاملہ کا انکار کرتے ہوئے قرآن شریف کی قسم کھانے کا وعدہ کرتا ہے۔ اب اس عورت کے بارے میں شریعت محمدیہ کا کیا حکم ہے؟ یعنی اس عورت کو رکھنا اس مرد کے لڑکے کے لئے جائز ہے یا نہیں؟ اگر رکھے تو اس کے واسطے نکاح دوبارہ کرنا ہوگا یا نہیں. نیز اس عورت پر طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
الجواب……………………………: قال في البحر وفي فتح القدير: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال: إن فى مسه إياها لاتحرم على أبيه وإبنه الا أن يصدقاها أو يغلب على ظنهما صدقها ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذالك اه.
قلت: ولما كان ثبوت الحرمة مشروطا بالتصديق وإذا فات الشرط فات المشروط فلا تثبت الحرمة بدون التصديق وإذا لم تثبت يحل للمرأة القيام مع زوجها ولكن يحتمل أن يكون المراد الثبوت قضاء ويؤيده ما في الفتح بعد كلامه المذكور ثم رأيت ابا يوسف أنه ذكر في الامالى، قال امرأة: قبلت إبن زوجها وقالت كان عن شهوة إن كذبها الزوج لايفرق ببنهما ولو صدقها وقعت الفرقة اه(٣/١٣٠)
وأما ديانة فينبغي أن تفتى المرأة بحرمة تمكينها إياه على نفسها فلا تمكنه بالرضاء وتسعى في الامتناع منه بالهرب أو بالخلع كما إذا طلقها ثلاثا وأنكر تطليقه إياها ولا بينة لها فإنه لا يفرق بينهما قضاء ويفتى في حق المرأة بالتحريم ووجوب الامتناع منه.
خلاصہ یہ کہ صورت مسؤلہ میں اگر عورت کو خسر کے متعلق شہوت وبدنیتی کا دعوی ہے کہ اس نے شہوت سے اس کو مس کیا ہے اور عورت کے پاس بینہ نہیں ہے اور خسر اور شوہر دونوں عورت کی تکذیب کرتے ہیں تو قضاء اس صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی اور ظاہر میں نکاح صحیح ہے لیکن چونکہ عورت کو اپنا سچا ہونا معلوم ہے اس لیے اس کو اپنے حق میں اس نکاح کو فاسد سمجھنا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو شوہر سے علیحدہ ہوجائے اور اپنی رضا سے شوہر کو اپنے اوپر قابو نہ دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved