• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بعض نمازوں میں سری قراءت اور بعض نمازوں میں جہری قراءت کرنے کی وجہ

استفتاء

میرا سوال یہ ہے کہ  امام صاحب فجر، مغرب اور عشاء کی نماز میں آواز سے قراءت کرتے ہیں جبکہ دیگر نمازوں میں آہستہ قراءت کرتے ہیں  اس کی کیا وجہ ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اصل تو یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسی طریقے سے نماز پڑھائی ہے اور ہمیں کسی عمل کی حکمت یا وجہ جاننے کا مکلف نہیں بنایا گیا تاہم اہل علم حضرات نے  اس میں مختلف حکمتیں ذکر کی  ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

حکمت اول: ابتداء اسلام میں  سب نمازوں میں تلاوت آوا زسے کیا کرتے تھے لیکن کفار  بہت ایذاء پہنچاتے تھے ان کی ایذاء سے بچنے کے لیے ظہر اور عصر میں آہستہ آواز سے تلاوت شروع کردی اور کفار مغرب کے وقت کھانے میں، عشاء اور فجر  کے وقت   سونے میں مشغول ہوتے تھے جس کی وجہ سے وہ   ان اوقات میں مسلمانوں کو  تکالیف  نہیں دیتے تھے اس لیے ان نمازوں میں آواز کے ساتھ تلاوت باقی رکھی گئی۔

حکمت دوم:دن کے وقت عام طور  پر شور ہوتا ہے  جبکہ مغرب، عشاء اور فجر ایسے اوقات میں ادا کی جاتی ہیں جن میں عموماً شور  کم ہوتا ہے  اس لیے ان نمازوں میں آواز کےساتھ تلاوت کا حکم دیا  گیا  تاکہ جو بھی قرآن پاک سنے اس کو نصیحت حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔

اعلاء السنن (4/5) میں ہے:

قال فی اعلاء السنن:والأصل أن النبی صلی الله عليه وسلم کان یجهر بالقرائة فی الصلاة کلها فی الابتداء وکان المشرکون یؤذونه فانزل الله تعالی:(ولا تجهر بصلاتك ولاتخافت بها)أی لا تجهر بصلاتک کلها، ولا تخافت بها کلها (وابتغ بين ذلك سبيلا)بان تجهر بصلاة اللیل، وتخافت بصلاة النهار، فکان یخافت بعد ذلک فی صلاة الظهر والعصر، لانهم کانوا مستعدین الإیذاء فی هذين الوقتین، ویجهر فی المغرب لانهم کانوا مشغولین بالاکل، وفی العشاء والفجر؛ لانهم کانوا رقوداً (نائمین)، وجهر بالجمعة والعیدین؛ لانه أقامهما بالمدینة وماکان للکفار بها قوة الایذاء، وهذا العذر وان زال بکثرة المسلمین، فبقیت هذه السنة؛لان بقاء الحکم یستغنی عن بقاء السبب.

تفسير مظہری(5/347) میں ہے:

 وفی التفسیر المظهري:او المعنی وابتغ بین ذلک سبیلا یعنی بالاخفاء نهارا وحیث یکون بمسمع من المشرکین وبالجهر المتوسط لیلا

حجۃ اللہ البالغۃ(3/422) میں ہے:

والسر في مخافتة الظهر والعصر ان النهار مظنة الصخب واللغط فى الاسواق والدور واما غيرهما فوقت هدوء الاصوات والجهر اقرب الى تذكر القوم واتعاظهم

احكام اسلام عقل کی نظر میں مؤلفہ حضرت  مولانا اشرف علی تھانویؒ (ص:13) میں ہے:

بعد الحمد والصلوۃ یہ احقر مدعا نگار ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اصل مدار ثبوت احکام شرعیہ کا نصوص شرعیہ ہیں جنکے بعد انکے امتثال اور قبول کرنے میں ان میں کسی مصلحت و حکمت کے معلوم ہونے کا انتظار کرنا بالیقین حضرت سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ بغاوت ہے جس طرح دنیوی سلطنتوں کے قوانین کی وجوہ و اسباب اگر کسی کو معلوم نہ ہوں اور وہ اس معلوم نہ ہونے کے سبب ان قوانین کو نہ مانے اور یہ عذر کر دے کہ بدون وجہ معلوم کئے ہوئے میں اسکو نہیں مان سکتا تو کیا اس کے باغی ہونے میں کوئی عاقل شبہ کر سکتا ہے تو کیا احکام شرعیہ کا مالک ان سلاطین دنیا سے بھی کم ہو گیا۔ غرض اس میں کوئی شک نہ رہا کہ اصل مدار ثبوت احکام شرعیہ فرعیہ کا نصوص شرعیہ ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved