- فتوی نمبر: 27-338
- تاریخ: 24 ستمبر 2022
- عنوانات: حظر و اباحت > تعلیم و پڑھائی سے متعلق مسائل
استفتاء
سوال یہ ہے کہ کس عمر تک بچے اور بچیاں ایک کمرہ جماعت میں بٹھائے جاسکتے ہیں ؟بچے اور بچیاں ایک کمرے میں ہیں لیکن بیٹھنے کی ترتیب الگ الگ ہے ،ایک قطار میں بچیاں اور دوسری قطار میں بچے۔
غرض سوال:ہم ایک تعلیمی ادارہ چلاتے ہیں ،ترجیحی بنیادوں پر ہم بچوں اور بچیوں کو الگ کمرہ جماعت میں بٹھاتے ہیں ،اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ادارہ کی کچھ مالی مشکلات اور معلمات کی کمی کی وجہ سے جماعت سوئم میں طلبہ اور طالبات اکٹھے بٹھائے ہیں،اگرچہ بچوں کی عمر 7سے8سال کے درمیان ہےمگر کچھ والدین بضد ہیں کہ بچوں اور بچیوں کو الگ کیا جائے،وہ اس بات پر بھی مصر ہیں کہ ایک ساتھ بٹھاناشرعا جائز نہیں۔
آپ سے استفتاء کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اس عمل کی شرعی حیثیت معلوم ہوجائےتاکہ والدین کی تشفی کی جاسکے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
چاند کے لحاظ سے جن لڑکوں کی عمر۱۰سال ہوگئی ہو یا دس سال کے قریب ہوگئی ہو اور جن لڑکیوں کی عمر ۹سال ہوگئی ہو یا نوسال کے قریب ہوگئی ہو ایسے لڑکے لڑکیوں کو اکٹھے بٹھانا درست نہیں اور جو لڑکے لڑکیاں چاند کے لحاظ سے مذکورہ عمر کے نہ ہوئے ہوں ان کو عام حالات میں اکٹھے بٹھانا جائز ہے تاہم اگر کوئی لڑکا یا لڑکی مذکورہ عمر کا نہ ہونے کے باوجود اپنے قد کاٹھ کے لحاظ سے مذکورہ عمر والوں کے برابر لگتا ہو تو اس کا حکم بھی ۱۰ سال کے لڑکے اور۹ سال کی لڑکی والا ہوگا۔
نوٹ:جس عمر کے لڑکے لڑکیوں کو اکٹھا بٹھانے کی اجازت ہے اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ اگر والدین کو اس پر اعتراض نہ ہو تو شرعا ممانعت نہیں لیکن اگر والدین کو اعتراض ہو تو جیسے والدین کہیں ویسے کرنا ضروری ہے بصورت دیگر آپ چاہیں تو ان بچوں کو داخلہ نہ دیں۔
تفسیر نسفی(678/1)میں ہے:
{إِنَّ عِدَّةَ الشهور عِندَ الله اثنا عَشَرَ شَهْراً} من غير زيادة والمراد بيان أن أحكام الشرع تبتنى على الشهور القمرية المحسوبة بالأهلة دون الشمسية.
احکام القرآن للجصاص(3/ 412) میں ہے:
«وقوله تعالى: {أو الطفل الذين لم يظهروا على عورات النساء} قال "مجاهد هم الذين لا يدرون ما هن من الصغر”. وقال قتادة: "الذين لم يبلغوا الحلم منكم”. قال أبو بكر: قول مجاهد أظهر; لأن معنى أنهم لم يظهروا على عورات النساء أنهم لا يميزون بين عورات النساء والرجال لصغرهم وقلة معرفتهم بذلك، وقد أمر الله تعالى الطفل الذي قد عرف عورات النساء بالاستئذان في الأوقات الثلاثة بقوله: {ليستأذنكم الذين ملكت أيمانكم والذين لم يبلغوا الحلم منكم} وأراد به الذي عرف ذلك واطلع على عورات النساء، والذي لا يؤمر بالاستئذان أصغر من ذلك. وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "مروهم بالصلاة لسبع واضربوهم عليها لعشر وفرقوا بينهم في المضاجع”، فلم يأمر بالتفرقة قبل العشر وأمر بها في العشر; لأنه قد عرف ذلك في الأكثر الأعم ولا يعرفه قبل ذلك في الأغلب»
اللباب فى شرح كتاب القدورى(2/183)میں ہے:
(و الصبي المراهق) و هو الذي تتحرك آلته وتشتهي و قدره (شمس الاسلام)بعشر سنين
تفسیر ابن کثیر(3/276)میں ہے:
«وقوله تعالى: أو الطفل الذين لم يظهروا على عورات النساء يعني لصغرهم لا يفهمون أحوال النساء وعوراتهن من كلامهن الرخيم وتعطفهن في المشية وحركاتهن وسكناتهن، فإذاكان الطفل صغيرا لا يفهم ذلك: فلا بأس بدخوله على النساء، فأما إن كان مراهقا، أو قريبا منه، بحيث يعرف ذلك ويدريه ويفرق بين الشوهاء والحسناء، فلا يمكن من الدخول على النساء، وقد ثبت في الصحيحين عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال «إياكم والدخول على النساء» قيل:يا رسول الله، أفرأيت الحمو؟ قال «الحمو الموت»
در مختار مع رد المحتار(4/121)میں ہے:
(و بنت) سنها (دون تسع ليست بمشتهاة)به يفتى
(قوله: ليست بمشتهاة به يفتى) كذا في البحر عن الخانية، ثم قال فأفاد أنه لا فرق بين أن تكون سمينة أو لا ولذا قال في المعراج بنت خمس لا تكون مشتهاة اتفاقا وبنت تسع فصاعدا مشتهاة اتفاقا وفيما بين الخمس والتسع اختلاف الرواية والمشايخ والأصح أنها لا تثبت الحرمة. اهـ
شرح سنن ابی داؤد للعینی(2/416)میں ہے:
«قوله: ” وفرقوا بينهم في المضاجع ” أي: في المراقد؛ وذلك لأنهم إذا بلغوا إلى عشر سنين يقربون من أدنى حد البلوغ، وينتشر عليهم آلاتهم،فيخاف عليهم من الفساد»
بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد(1/278)میں ہے:
قال في "المجمع”: وحديث "فرقوا بينهم في المضاجع”، أي فرقوا بين الأخ والأخت مثلًا في المضاجع لئلا يقعوا فيما لا ينبغي، لأن بلوغ العشر مظنة الشهوة»
معارف القرآن مفتی شفیع صاحب (6/405) میں ہے:
بارہویں قسم’’ او الطفل الذین ‘‘ہے
اس سے مراد وہ نابالغ بچے ہیں جو ابھی بلوغ کے قریب بھی نہیں پہنچے اور عورتوں کے مخصوص حالات و صفات اور حرکات و سکنات سے بالکل بے خبر ہوں اور جو لڑکا ان امور سے دلچسپی لیتا ہو وہ مراہق یعنی قریب البلوغ ہے ،اس سے پردہ واجب ہے ۔
تفسیر عثمانی(ص:472)میں ہے:
قوله:أو الطفل الذين لم يظهرا على عورات النساء
جن لڑکوں کو ابھی تک نسوانی سرائر کی کوئی تمییز نہیں ،نہ نفسانی جذبات رکھتے ہیں۔
فتاویٰ محمودیہ(3/389) میں ہے:
اسلامیہ اسکول میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو معلمہ کی حیثیت سے مقرر کرنا شرعاً درست نہیں، اسی طرح سیانی لڑکیوں کو لڑکوں کے اسکول میں داخل کرنا جائز نہیں، دس سال کی لڑکی (حسب سوال سائل) کو ہرگز ایسے اسکول میں داخل نہ کیا جائے اس میں سخت فتنہ ہے۔ فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved