• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بچوں کے نام جائیداد ہبہ کرنے کےمتعلق سوال

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب آج سے تقریباً 16 سال پہلے میرے شوہر نے میرے نام پر ایک زمین خریدی تھی یہ کہہ کر کہ یہ میں اپنے بچوں کے لیے خرید رہا ہوں تاکہ وہ کل کو کسی کے محتاج نہ ہوں۔ واضح رہے کہ میرے 2 بیٹے ہیں اور میرا بڑا بیٹا ذہنی معذور ہے اور یہ بات اس کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد کی ہے۔ ان کو اس وقت اس بات کا ڈر تھا کہ ان کی موت کی صورت میں ان کے گھر والے ان کے بچوں کا حصہ کھا جائیں گے۔اس کے بعد اللہ نے انہیں بہت وسعت دی اور انہوں نے بہت سی اور زمینیں اور مکان خریدے اور بیچے۔ کچھ میرے نام پر لیے لیکن ان کے متعلق کبھی کچھ کہا نہیں۔اور وہ ان کے کہنے پر ان کی مرضی کے مطابق بیچ بھی دیے۔ اب جو زمین میرے نام پر خریدی تھی اس پر گھر بھی بنا لیا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے وہ دوسری شادی کر نا چاہتے تھے اور اس گھر کو واپس اپنے نام لینا چاہتے تھے۔ میرے واضح انکار پر ہماری ان بن رہتی تھی۔ اس کے علاوہ بھی ہماری مسلسل ان بن رہتی تھی۔

اب شادی کے 19 سال بعد اس شخص نے مجھے طلاق دے دی ہے۔ اس کے بعد وہ ایک طرف تو مجھے یہ کہتا ہے کہ وہ گھر  اپنی مرضی کے خلاف اپنے بچوں کو دے رہا ہے دوسری طرف وہ اس کے لیے مجھے عدالت میں گھسیٹنے کی دھمکیاں دیتا ہے( واضح رہے کہ وہ ایک ذہنی مریض بھی ہے)۔کیا میں وہ گھر اپنے بچوں کے لئے اپنی مرضی سے استعمال کر سکتی ہوں۔

(یعنی کرایہ پر دے سکنا یا بیچ کر دوسرا گھر خرید کر اسے استعمال میں لانا )

وضاحت مطلوب ہے :کہ کیا اس زمین کے بارے میں یا اس مکان کے بارے میں آپ کے شوہر نے کبھی یہ کہا تھا کہ یہ آپ کا ہے؟ یا صرف آپ کے نام سے خریدا ہی تھا؟

جواب وضاحت :انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ  یہ جگہ بچوں کی ہے ۔خاص طور پر میرے معذور بچےکی اور میرے نام سے خریدنے کی وجہ اس وقت یہی تھی کہ ان کے خیال میں اگر وہ مر گئے تو ان کا خاندان ان کے بچوں کو جائز حق نہیں دے گا۔

وضاحت مطلوب ہے بچوں کا خرچہ اب کون  کر رہا ہے ؟ شوہر وہ مکان لے کر معذور بچے کو دے گا یاکیا کرے گا؟ تفصیل سے بیان کریں؟

جواب وضاحت: بچوں پر خرچ میں کر رہی ہوں، بچے بھی میرے ہی ساتھ ہیں، شوہر اس کو اپنے استعمال میں لانا چاہتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر نے کئی بار یہ کہا ہے کہ  ’’یہ جگہ میرے بچوں کی ہے ‘‘اس لیے  یہ جگہ بچوں کے نام ہدیہ ہو چکی ہے  اس لیے شوہر اب وہ زمین نہیں لے سکتا اور چونکہ شوہر پر تسلی نہیں، اس لیے آپ اپنی مرضی سے اسے اپنے بچوں کے لیے کرایہ پر دے کریا فروخت کرکےاستعمال کرسکتی ہیں۔

امداد الفتاوی(3/25)میں ہے:

سوال (۱۶۲۰) :  قدیم  ۳/ ۲۵-   ماں کو اپنی اولاد صغار کی جائیداد صحرائی وسکنائی بخوف تلف یا تنگی اخراجات کی وجہ سے کہ سوائے اس جائیداد کے کوئی ذریعہ ان کے نان ونفقہ کا نہیں ہے فروخت کر دینا اس جائیداد اور اس کی قیمت کا صرف کرنا ان کے ضروریات نان ونفقہ میں جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب: في الدرالمختار ومع ردالمحتار، باب الوصی: وجاز بیعه (أي  الوصی) عقار صغیر من أجنبي لا من نفسه بضعف قیمتة أو لنفقۃ الصغیر أو دین المیت أووصیة مرسلة لا نفاذ لها إلا منه أو لکون غلاته لا تزید علی مؤنته أوخوف خرابه أو نقصانه أو کونه في ید متغلب درر وأشباہ ملخصا قلت: وهذا لو البائع وصیاً لا من قبل أم فأنهما (رأی الأم والأخ) لا یملکان بیع العقار مطلقاً، ولا شراء غیر طعام وکسوۃ، ولو البائع ابا، فإن محمودا عند الناس أو مستور الحال یجوز ابن کمال، وفي ردالمحتار: قوله: مطلقاً أی ولو في هٰذا المستثنیات، وإذا احتاج الحال إلی بیعه یرفع الأمر إلی القاضي۔(۱) (ط، جلد ۵ ص ۶۹۷)

اس روایت سے ثابت ہوا کہ ماں کا بیع کرنا جائیداد صغیر کو فی نفسہ جائز نہیں ، بلکہ حاجت کے وقت حاکم مسلم کی طرف رجوع کیا جاوے اور حاکم مسلم کے نہ ہونے کے وقت متعلق جزئی نظر سے نہیں گذری؛ لیکن چونکہ حاجت متحقق ہے اور حرج مدفوع ہے، لہٰذا بضرورت جائز معلوم ہوتا ہے (۲)۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved