- فتوی نمبر: 3-159
- تاریخ: 11 اپریل 2010
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
وصیت
میں *** ولد حافظ*** مرحوم سکنہ۔۔۔۔لاہور جو کہ بہت زیادہ بیمار ہوں اور انتہائی مایوسی کی حالت میں ہوں اور نہیں جانتا کہ یہ چراغ سحری کب بجھ جائے اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنی وصیت تحریر کردوں تاکہ میرے مرنے کے بعد میرے پس ماندگان دونوں بیویوں اور پانچوں اولاد کے درمیان کوئی جھگڑا یا فتنہ پیدا نہ ہو یہ وصیت میں بقاہمی ہوش وحواس خمسہ اور بغیر کسی جبر کے لکھ رہا ہوں۔
میں نے تین شادیاں کیں۔ ایک بیوی *** سےمیری اکتوبر 1987 میں علیحدگی ہوگئی تھی اس کے بطن سے میرے تین بچے ******، ****** اور*** ہیں، تینوں شادی شدہ اور بچوں والے ہیں۔ اس بیوی کے ساتھ طویل مقدمہ بازی کے بعد بمطابق راضی نامہ مابین میرے اور *** کے بچوں جو کہ عدالت میں ہوا اور میرے اور ان کے پاس موجود ہے۔ 20 سال قبل ان کو مندرجہ ذیل منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد دے چکا ہوں اور اب میری موجودہ منقولہ اور غیرمنقولہ جائیداد میں حصہ دار نہیں ہے۔ ۱۔ 2 عدد پلاٹ واقع سبزار سکیم ۲۔ دونوں بچیوں کی شادی کا خرچ 260000۔ ۳۔شادی کے وقت دوبارہ 80 ہزار کا زیور اور ایک لاکھ نقد۔ ۴۔ تینوں بچوں کے بالغ یعنی 21 سال کی عمر تک نان ونفقہ مکمل خرچ۔ ۵۔ میری *** کی دوکان جسمیں اس وقت تین لاکھ سے زیادہ کا سامان فروخت موجود تھا۔
میری موجودہ منکوحہ بیویاں *** ( شادی تقریباً 1984 اور *** (شادی مئی 1989) حیات ہیں۔ *** کی کوئی اولاد نہیں ہے اور *** سے میری دو بیٹیاں ******،****** اور تین بیٹے ******، ******، اور ****** ہیں۔ پانچوں بچے ابھی قانون کے مطابق ( عمر اکیس سال سے کم ہے ) نابالغ ہیں۔
دونوں بیویوں *** اور *** کی شادی کے فوراً بعد میں دونوں کے نام ایک لاکھ روپے فی کس لگایا تھا، *** کا جیب بینک میں نفع نقصان کی بنیاد پر اور *** کا تاج کمپنی میں نفع نقصان کی بنیاد پر اور دونوں کو بتادیا تھا کہ انہوں نے اس ایک ایک لاکھ کے منافع سے اپنا جیب خرچ، کپڑا اور دوائی کا خرچ پورا کرنا ہے۔ *** نے پانچ سال بعد ایک لاکھ بینک سے نکال کر کسی کاروبار میں لگا دیا تھا اور *** کا ایک لاکھ جو کہ میں نے خود اپنے ہاتھ سے تاج کمپنی میں لگایا تھا، پھنس گیا تھا نہ اس کوئی دس سال منافع ملا اور باقی صرف 80 ہزار وصول ہوئے تھے جس میں سے میں نے اس کے مشورے سے 20 ہزار روپے اس کو زیور کو دوبارہ صحیح کرواتے ہوئے ڈال دیا تھا او رباقی 60 ہزار اس کی مرضی سے اپنے پچھلے گھر کی تعمیر میں خرچ کرلیا تھا۔
16 سال پہلے جب مجھے ہارٹ اٹیک ہوا تھا تو میں نے اچھی طرح سوچ وبچار کرنے اور دونوں بیویوں سے مشورہ کے بعد اپنی
منقولہ وغیرہ منقولہ جائیداد کو درج ذیل طریقے سے تقسیم کردیا تھا:
1۔ میری رہائش والے مکان 8/C توحید پارک کو آدھا آدھا حصہ برابر اپنے دونوں بیٹوں ******، اور *** کے نام رجسٹری کروا کر انتقال اور فرد بھی بنوادی تھی۔
2۔ میری موجودہ رہائش کے عقب میں موجود خالی پلاٹ کو اپنے سب سے چھوٹے بیٹے ****** کے نام رجسٹری کروا کر انتقال اور فرد بھی بنوادی تھی تاکہ میری سابقہ مطلقہ بیوی اور اس کے تینوں بچے کوئی جھگڑا میرے بعد نہ ڈال سکیں۔
3۔ آٹھ سال پہلے جب میں نے اپنے گھر کے پچھلے پلاٹ پر گھر بنا کر کرایہ پر دیا تو یہ سوچ کر میرے تینوں بیٹے آئندہ اپنے دونوں بہنوں کو حصہ نہ دیں گے باقی جو رقم نقد میرے پاس *** کی دکان برباد ہونے، گاڑیوں کے کاروبار میں تقریباً ساڑھے سات لا کھ ضائع ہونے اور پچھلے پلاٹ پر آٹھ سال پہلے سولہ لاکھ کا گھر تعمیر کرنے کے بعد جو میرے پاس بہت تھوڑی رقم بچی تھی وہ میں نے اپنی دونوں بچیوں ****** اور****** کے نام بحصہ برابر آدھا آدھا اپنے سب سے قریبی مخلص ترین اور واحد دوست جو کہ انتہائی متقی ہے پرہیز گار باشرع ہیں اور جن کی میں اپنے ماں باپ کے بعد سب سے زیادہ عزت و احترام کرتاہوں ( جن کا نام *** ہے ) کے پاس نفع ونقصان کی بنیاد پر لگا دی تھی۔ پچھلے گھر کی تعمیر کے وقت مجھ پر ساڑھے چار لاکھ قرض چڑھ گیا تھا اور اپنے موجودہ رہائش پذیر مکان کی بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔ چار سال پہلے اس کی مکمل مرمت اور لکڑی کے کام پر مجھ پر مزید ساڑھے چھ لاکھ قرض چڑھ گیا تھا۔ یعنی کل 11 لاکھ قرض چڑھ گیا تھا۔ بھائی *** بچیوں کے نام لگائی گئی رقم کی زکوٰة کاٹنے کے بعد ہمیں منافع دیتے ہیں اس کو ہم اپنے گھر کے خرچ میں نہیں لاتے ما سوائے کوئ ایمرجنسی خرچ کے اس منافع سے میں نے اپنے کل قرض 11 لاکھ میں سے ساڑھے نو لاکھ ادا کردیا ہے اور باقی ڈیڑھ لاکھ بھی انشاء اللہ تعالیٰ اتر جائے گا۔
موجودہ رہائش پذیر مکان 8/c توحید پارک کے اوپر پورشن میں بڑی *** رہائش پذیر اور اسی حصہ میں وہ بچوں کو قرآن پڑھانے کاسلسلہ بھی جاری رکھے ہوئی ہے اس وصیت کے مطابق میری بیوی ***(۱) اوپر والے حصے کی مکمل ساری زندگی مالک ہے نہ اس کو کوئی نکال سکتا ہے اور نہ ہی بے دخل کر سکتا ہے۔ (۲) *** ساری زندگی بجلی، سوئی گیس، فون اور پانی کا بل نہیں دے گی اور نہ اس سے کوئی کسی بھی قسم کا بل مانگا جاسکتا ہے تاہم اگر *** اوپر صرف اپنی ذات کے لیے ایک علیحدہ فریج چلاتی ہے تو پھر اس کو پانچ سو روپے ماہانہ دینا پڑے گا۔ میری دونوں بیویاں فی الحال ایک فریج سے گزارہ کر رہی ہیں۔ (۳) میرے دوست بھائی *** جو میری بچیوں کی رقم کے امین ہیں ہر مہینے منافع سے اوسط زکوة کاٹ کر باقی منافع میں سے ساڑھے چار ہزار ماہوار *** کو دیں گے اور ہر دو سال بعد *** کے خرچ ساڑھے چار ہزار میں پانچ سو روپیہ کا اضافہ کر دیا جائے گا۔ (۴) اگر خدا نخواستہ *** کو کسی مہلک بیماری یا آپریشن کی وجہ سے مزید رقم کی بھی ضرورت پڑتی ہے تو وہ رقم بھی بھائی *** میری بیوی *** کو دینے کے پابند ہوں گے۔
میرا دوسرا گھر جوکہ میرے موجودہ رہائش پذیر گھر کے عقب میں ہے اس سے ہمیں تقریباً 21 ہزار کرایہ یکم اپریل 2010 آیا کرے گا۔ اس کرایہ سے میری چھوٹی بیوی *** اور اپنے پانچوں بچوں کا سب مکمل خرچ نان و نفقہ، ملبوسات، بچوں کی تعلیم وتدریس پورے کرے گی۔ او رسارے گھر کا دونوں حصوں کے تمام بل بھی وہ خود اپنے پاس سے دے گی، گھر کے تمام بل ادا کرنے کے بعد *** اور اس کے پانچوں بچوں کو فی کس تقریباً 2800 روپے ماہوار بچے گا اور اسی سے انہوں نے ہر قسم کے مکمل اخراجات پورنے کرنے ہیں کیونکہ بھائی *** کے پاس لگائی گئی بچیوں کی امانت کے منافع *** یا اس کو سارے بچوں کو بالکل کچھ نہیں ملے گا اور نہ وہ اس کے حقدار ہیں۔
جب تک میرے پانچوں بچوں کی شادی نہیں ہو جاتی میری دونوں بیٹیاں *** اور*** میرے دوست *** سے نہ اپنی رقم واپس مانگ سکتی ہیں اور نہ اس رقم کا منافع مانگنے کی حقدار ہیں۔
بھائی *** بچیوں کی امانت رقم کے ماہوار منافع سے زکوٰة کاٹ کر اور میری بڑی بیوی *** کے ماہوار ساڑھے چار ہزار نکال کر باقی اپنے پاس بطور امانت جمع کرتے رہیں گے۔ اور جب میری چھوٹی بیوی *** اپنے دونوں بیٹیوں *** اور*** کی شاد ی کی تاریخ طے ہونے کے دو ماہ پہلے بھائی *** کو بتا دے گی اس وقت تک جو بھی رقم *** کا خرچ اور زکوٰة کاٹنے کے بعد جمع ہوگی وہ میری بیوی *** بچیوں کی شادی پر لگا دے گی۔ اسی طرح میرے تینوں بیٹوں ***، *** اور *** کی شادی کے وقت بھی اگر کچھ منافع کی رقم جمع ہوگی وہ بچوں کی ماں کو شادی کے لیے دیدی جائے گی۔
میرے پانچوں بچوں کی شادی کے بعد خدانخواستہ ان کی دونوں ماؤں سے ایک بھی زندہ نہیں رہتی تو بچیوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حصے کی آدھی آدھی رقم بھائی *** سے لے لیں یا ان ہی کے پاس بطور ماہوار نفع ونقصان کی بنیاد پر زکوٰة کی کٹوتی پر لگی رہنے دیں۔میرے مرنے کے بعد کسی قسم کی آہ فغاں نہ کی جائے اور نہ کوئی غیر شرعی رسم قل یا چالیسواں کیا جائے ورنہ غیر شرعی کام کرنے والا خود اللہ کے پاس جوابدہ ہوگا۔ مجھے غسل بھائی *** دیں گے اور وہی کفن دفن کا سارا خرچ برداشت کریں گے اور میرا جنازہ قاری حبیب الرحمان پڑھائیں گے۔ میں نے اپنی ناقص عقل کے مطابق ہر بات کا احاطہ کیا ہے تاکہ وصیت سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
1۔ ایک شخص نے اپنی تمام جائیداد اپنی زندگی میں تمام بچوں میں تقسیم کردی، مکانات ان کے نام رجسٹری کرادی۔ بچیوں کو نقد رقم دے دی۔ ان میں سے کچھ نابالغ بھی ہیں۔
2۔ کیا اب وہ ان مکانات میں تصرف کر سکتا ہے جیسے کرایہ وغیرہ استعمال کر سکتا ہے؟
3۔ بچیوں کی رقم سے کچھ لے سکتا ہے یا نہیں؟
4۔ اگر اس کے پاس گذران کے لیے بھی پیسے نہ ہوں تو کیا وہ اپنے ذات یا اپنی اہلیہ کے لیے کچھ رقم لے سکتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جو رقم *** کے پاس دو بچیوں کے نام سے بطور سرمایہ لگائی ہے اس میں سے وہ بہت سے اخراجات کیونکر ہو سکتے ہیں جو آگے لکھے ہیں۔ اگر پوری جائیداد بچوں میں تقسیم کردی ہے تو بچوں کے ذمہ ماں باپ کا خرچہ و رہائش ہو گی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved