• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بدعتی امام مسجد کی وجہ سے گھرمیں جماعت کروانا

استفتاء

السلام وعلیکم ؛

ہمارے محلے میں صحیح العقیدہ لوگوں کی مسجد نہیں ہے تو کیا میں اپنے گھر میں بھائیوں کو جماعت کروا سکتا ہوں ؟

اگر گھر میں جماعت کرواؤں گا تو 25 یا 27 درجہ والی فضیلت ملے گی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب بدعتی امام کو ہٹانے پر قدرت نہ ہو تو ایسی صورت میں گناہ آپ پر  نہیں بلکہ خود امام پر ااور ایسے لوگوں پر ہو گا جو ایسے امام کو ہٹانے پر قدرت کے باوجود نہیں ہٹاتے ۔ لہذا  آپ کو مسجد کی جماعت چھوڑ نے کی ضرورت نہیں ۔ تاہم ایسی صورت میں اگر آپ مسجد کی جماعت چھوڑ کر گھر میں جماعت کروائیں گے تو یہ جماعت کروانا بھی درست ہو گا اور اس پر مسجد کی فضیلت کی بھی امید کی جا سکتی ہے ۔

فتاوی شامی 2/257 میں ہے

وفى النهر عن المحيط صلى خلف فاسق او مبتدع نال فضل الجماعة …قوله (نال فضل الجماعة ) افاد ان الصلاة  خلفهما اولی من الانفراد ……

امدادالاحکام  1/513 میں ہے

الجواب:   قال فی البحروذکر فی غايةالبیان معزیاالی الاجناس ان تارک الجماعة یستوجب اساء ۃ ولاتقبل شهادته اذا تركها استخفافا بذلک ومجانة اما اذا تركها  سهوا اوتركها  بتاویل بان یکون الامام من اهل الاهواء اومخالفا لمذهب المقتدی لایراعی مذهبه فلایستوجب الاساء ۃ وتقبل شهادته (ص ۳۴۵ج۱) وفيه ایضاوذکرالشارح وغیرہ ان الفاسق اذا تعذرمنعه یصلی الجمعة خلفه وفی غیرهاینتقل الیٰ مسجد اٰخروعلله فی المعراج بان فی غیرالجمعة یجد اماما غیرہ فقال فی فتح القدیر وعلی هذا فیکرہ الاقتداء به فی الجمعة اذا تعددت اقامتها فی المصرعلیٰ قول محمدؒ وهوالمفتی به لانه  بسبیل من التحول حینئذ اھ (ص ۳۴۹ج۱) وفی تعلیق البحر لابن عابدین عن القنية  اختلف العلماء فی اقامتها فی البیت والاصح انها کاقامتها فی المسجدالافی الفضیلةوهو ظاهر مذهب الشافعی اھ (ص۳۴۵ ج۱) عبارت اولیٰ سے بدعت امام مسقط جماعت معلوم ہوتا ہے اورعبارت ثانیہ سے وجوب تحول بجانب امام دیگر مفہوم ہوتا ہے اور عبارت ثالثہ سے جماعت خانہ کاحکم مثل جماعت مسجد معلوم ہوتا ہے ، صرف فضیلت کافرق ہے، پس اگرعذربدعت امام کی وجہ سے گھرمیں جماعت اہل سنت کے ساتھ نمازپڑھی جائے تو عبارات مذکورہ سے اس کا جوازثابت ہوتا ہے، رہا یہ کہ اس صورت میں جماعت بیت سے مسجد کی فضیلت حاصل ہوگی یا نہیں، اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا ، البتہ مراقی الفلاح میں کہا ہے واذاانقطع عن الجماعةلعذر من اعذارها المبیحة للتخلف وکانت نیته حضورهالولاالعذرالحاصل یحصل له ثوابها  لقوله ا انماالاعمال بالنیات وانما لکل امریٔ مانوی اھ (ص۱۷۴) اور اوپربدعت امام کاعذرہونامعلوم ہوچکاہے ، ان مقدمات سے مستنبط ہوسکتا ہے کہ اس صورت میں مسجد کی فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی ، واللہ اعلم، لیکن اس پر خدشہ یہ ہے کہ حضرات صحابہؓ نے حجاج وغیرہ کے پیچھے جماعت ترک نہیں کی ، حالانکہ وہ بھی اپنے کسی گھرمیں الگ جماعت کرسکتے تھے، اگریہ افضل ہوتا تو صحابہ ضرور ایسا کرتے، ہاں یہ ممکن ہے کہ انہوں نے خوف کی وجہ سے تخلف جماعت نہ کیاہو، فتدبر، ۱۹ ذیقعدہ ۴۲ھ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved