- فتوی نمبر: 7-234
- تاریخ: 08 جنوری 2015
- عنوانات: عبادات
استفتاء
ایک گاؤں*****شہر سے سات کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، اس کی کل آبادی 2390 افراد پر مشتمل ہے، اور اس گاؤں میں تقریباً 20 دکانیں پرچون و سبزی و فروٹ وغیرہ کی ہیں، اور ویلڈنگ و پنکچرز کی تقریباً پانچ دکانیں ہیں اور بچوں کا پرائمیر سکول اور لڑکیوں کا مڈل سکول ہے ، اور یونین کونسل کا دفتر بھی موجود ہے ، واضح رہے کہ یہ دکانیں متفرق جگہوں پر ہیں،
مارکیٹ کی شکل میں متصل دورویہ نہیں ہیں، مسجد پانچ ہیں، تین میں صبح شام تعلیم قرآن ہوتی ہے جبکہ دو مستقل مدرسہ ہیں۔
آیا اس گاؤں میں جمعہ شرعاً پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ یا نمازِ ظہر ادا کرنا فرض ہے؟ جواب بحوالہ فقہ حنفی ارشاد فرمائیں۔
نوٹ: سائل نے فون پر بتایا کہ اس بستی کے بالغ مرد اس بستی کی سب سے بڑی مسجد میں نہیں سما سکتے۔
تفصیلی پرچہ
بستی ***** شہر سے سات کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے جس کے تمام کوائف مندرجہ ذیل ہیں:
تعداد گھرانہ 406، تعداد کل افراد 2390، آٹا چکی 3 عدد، آرا لکڑی 2 عدد، پینجا مشین ایک عدد، کولھو تیل ایک عدد، اسلحہ رپیرنگ دوکان ایک عدد، فرنیچر دکان 2 عدد، ڈیزل پٹرول ایجنسی بمعہ کرایہ 4 عدد، کریانہ دکان 19 عدد، کوشت بھٹہ ایک عدد، درزی کپڑے سلائی 4 عدد،، پنکچر دکان 3 عدد، ویلڈنگ دکان 2 عدد، دکان جوتی مرمت ایک عدد، دکان نئی جوتی ایک عدد، دفتر یونین کونسل ایک عدد، سکول مردانہ عدد، سکول زنانہ ایک عدد، ڈاکٹر کلینک 4 عدد، مسجد 5 عدد،، مدرسہ تعلیم القرآن 3 عدد، رائس فیکٹری ایک عدد، ٹاور موبائل 2 عدد، موٹر سائیکل مرمت ایک عدد، سبزی دکان کریانہ فروٹ 4 عدد، دودھ دہی کریانہ ایک عدد، سموسے پکوڑے ربڑی 3 عدد۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
فقہ حنفی کی رُو سے جمعہ صحیح ہونے کے لیے منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جہاں جمعہ پڑھا جا رہا ہے وہ جگہ شہر یا بڑی بستی ہو یا ان دونوں کی فناء ہو۔
البتہ شہر یا بڑی بستی کی حد بندی میں خود حنفیہ کے متعدد اقوال ہیں جن کی تفصیل “بدائع الصنائع” میں موجود ہے۔ ان میں سے دو قول زیادہ مشہور اور مفتیٰ بہ ہیں:
1۔ ہر وہ بستی جس میں مختلف گلی محلے ہوں اور اس آبادی میں ایسا بازار ہو جس میں تیس چالیس دکانیں متصل اور مستقل ہوں اور ان دکانوں میں روز مرہ کی ضروریات دستیاب ہوں۔
2۔ ہر وہ بستی کہ جس کی (عام معمول کے مطابق) سب سے بڑی مسجد میں اس بستی کے بالغ مرد نہ سما سکیں۔
نوٹ : عام معمول کے مطابق بڑی مسجد ہونے کی قید اس لیے لگائی کہ اگر غیر معمولی بڑی مسجد مراد لی جائے تو پھر شاید مکہ
مکرمہ اور مدینہ منورہ زادهما الله شرفا بھی اس اس قول کے مطابق مصر کی تعریف میں داخل نہ ہوں گے، کیونکہ مسجد نبوی میں مدینہ کے بالغ مرد ، اور مسجد حرام میں مکہ کے بالغ مردبآسانی سما سکتے ہیں۔ حالانکہ ان دونوں شہروں میں جب سے جمعہ شروع ہوا ہے اس وقت سے لے کر آج تک کوئی بھی عدمِ جواز کا قائل نہیں رہا۔
چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:
(و يشترط لصحتها) سبعة أشياء: الأول المصر و هو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها و عليه فتوی أكثر الفقهاء …. لظهور التواني في الأحكام. و ظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير و قاض يقدر علی إقامةالحدود. و في الرد قوله (و عليه فتوی أكثر الفقهاء الخ) و قال أبو شجاع هذا أحسن ما قيل فيه و في الولوالجية و هو صحيح … و عليه مشی في الوقاية و متن المختار و شرحه و قدمه في متن الدرر علی القول الآخر و ظاهره ترجيحه و أيده صدر الشريعة بقوله لظهور التواني في أحكام الشرع سيما في إقامة الحدود في الأمصار. قوله (و ظاهر المذهب الخ) قال في شرح المنية: و الحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير و قاض ينفذ الأحكام و يقيم الحدود … عن أبي حنيفة رحمه الله أنه بلدة كبيرة فيها سكك و أسواق و لها رساتيق و فيها وال يقدر علی إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته … ان قال و هذا هو الأصح . (3/ 6)
اگرچہ ان دونوں قولوں پر متعدد فقہاء کرام کے فتوے ہیں لیکن پہلا قول چونکہ ظاہر المذہب ہے اس لیے اصل اور راجح تو یہی ہے اور حتی الامکان اسی کو اختیار کیا جائے۔ البتہ اگر کوئی بڑی بستی ایسی ہو کہ جس میں گلی محلے تو ہوں اور پندرہ بیس دکانیں بھی ہوں جن میں روز مرہ کی ضرورت کی اشیاء بھی دستیاب ہوں، لیکن یہ دکانیں متصل اور مسلسل نہ ہوں بلکہ متفرق ہوں (جیسا کہ سوال میں ذکر کردہ بستی کی صورتحال ہے) اور اس بستی کی (عام معمول کے مطابق) بڑی مسجد میں اس بستی کے تمام بالغ مرد بھی نہ سما سکیں تو ایسی صورت حال میں دوسرے قول پر عمل کر لینا بھی فقہ حنفی کی رُو سے درست ہے۔
نوٹ: دوسرے قول پر عمل کے لیے یہ قید (کہ اس بستی میں گلی محلے ہوں، پندرہ بیس دکانیں ہوں جن میں ضرورت کی اشیاء دستیاب ہوں الخ) دو وجہوں سے لگائی:
1۔ أكبر مساجده کا تحقق تب ہی ہو گا جب کہ اس بستی میں کم از کم دو تین مسجدیں ہوں اور جہاں دو تین مسجدیں ہوں گی وہاں عموماً گلی محلے بھی ہوں گے۔
2۔ پندرہ بیس متفرق دکانوں سے اگرچہ بازار کا تحقق تو نہ ہو گا لیکن اس سے یہ قول ظاہر المذہب کے کافی قریب ہو جائے گا۔
سوال میں جس بستی کا ذکر ہے اس کی نوعیت بھی ایسی ہی ہے کہ وہ پہلے قول کے مطابق تو بڑی بستی اور شہر کے زمرے میں نہیں آتی، کیونکہ اس میں دکانیں مسلسل اور متصل مارکیٹ کی شکل میں نہیں۔ لیکن اس میں گلی محلے بھی ہیں، تقریباً 20 عدد دکانیں بھی ہیں، جن میں روز مرہ کی ضرورت کی اشیاء بھی دستیاب ہیں۔ اور اس بستی کی بڑی مسجد میں اس بستی کے تمام بالغ مرد بھی نہیں سما سکتے۔ لہذا اس بستی میں فقہ حنفی کی رُو سے جمعہ پڑھنا درست ہے۔
تنبیہ: اگر کچھ لوگ ایسے ہوں کہ وہ پہلے قول کے پیشِ نظر وہاں جمعہ نہ پڑھتے ہوں تو ان پر اعتراض بھی نہ کیا جائے اور نہ ہی وہ لوگ جمعہ پڑھنے والوں پر اعتراض کریں۔ کیونکہ بہر حال دونوں کے پاس دلیل ہے اور دونوں میں سے کوئی بھی فریق جبکہ وہ دلیل اور فتوے کی بنیاد پر عمل کر رہا ہے اپنے عمل کرنے میں گناہگار نہیں اور مسلمانوں کا آپس کے فتنہ و فساد سے بچنا نہایت ہی ضروری ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved