• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بڑی مسجد میں صفوں کے درمیان خالی جگہ ہوتے ہوئے اقتداء اور نماز کا حکم

استفتاء

مسئلہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑی جگہ میں لوگ نماز پڑھتے ہیں تو ایک دو صفوں میں لوگ جگہ چھوڑ کر پچھلی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

تنقیح:رائے ونڈ مرکز مسجد ہے،مسجد چونکہ بڑی ہے تو درمیان کی کچھ صفوں میں جگہ خالی رہ جاتی ہے شروع سے صف ٹھیک ہوتی ہے آخری صفوں میں لوگ کناروں پر کھڑے رہتے ہیں درمیان کی جگہ خالی ہوتی ہے،مسجد کا تہہ خانہ،اسی طرح اوپر کی مسجد میں بھی جگہ خالی رہتی ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اقتداء درست ہے کیونکہ فقہاء کرام نے بڑی مسجد میں صفوں کے درمیان فصل کو اقتداء سے مانع قرار نہیں دیا لہذا مذکورہ مسجد میں صفوں کے درمیان خالی جگہ ہونے کے باوجود اقتداء درست ہے،البتہ نماز مکروہ ہوگی۔

رد المحتار (2/ 400)میں ہے:

(قوله أو في مسجد كبير جدا إلخ) قال في الإمداد: والفاصل في مصلى العيد لا يمنع وإن كثر. واختلف في المتخذ لصلاة الجنازة. وفي النوازل: جعله كالمسجد، والمسجد وإن كبر لا يمنع الفاصل إلا في الجامع القديم بخوارزم، فإن ربعه كان على أربعة آلاف أسطوانة وجامع القدس الشريف أعني ما يشتمل على المساجد الثلاثة الأقصى والصخرة والبيضاء، كذا في البزازية.

فتاوى ہندیہ(1/ 88)میں ہے:

والمسجد ‌وإن ‌كبر لا يمنع الفاصل فيه. كذا في الوجيز للكردري.ولو اقتدى بالإمام في أقصى المسجد والإمام في المحراب فإنه يجوز. كذا في شرح الطحاوي.

الدر المختارط رشیدیہ(371/2)میں ہے:

قال الشمني: وينبغي أن يأمرهم بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا مناكبهم ويقف وسطا،وخير صفوف الرجال أولهافي غير جنازة، ثم، وثم: ولو صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكانا كره كقيامه في ‌صف ‌خلف ‌صف فيه فرجة.

وفي الشامية:(قوله كره) لأن فيه تركا لإكمال الصفوف. والظاهر أنه لو صلى فيه المبلغ في مثل يوم الجمعة لأجل أن يصل صوته إلى أطراف المسجد لا يكره (قوله كقيامه في صف إلخ) هل الكراهة فيه تنزيهية أو تحريمية، ويرشد إلى الثاني قوله – صلى الله عليه وسلم – ” ومن قطعه قطعه الله “

خیر الفتاویٰ(557/6)میں ہے:

جواب:فقہاء مکرام سے بڑی مسجد کی کوئی مشخص تعریف منقول نہیں،البتہ جس مقام پر انہوں نے اس مسئلہ کو ذکر کیا ہے تو بڑی مسجد کی مثال بیت المقدس اور جامع مسجد قدیم خوارزم بتلائی ہےپھر ان دونوں مسجدوں کی پوری تعریف اور تحدید نہیں کی لیکن ان دونوں مسجدوں کے متعلق علامہ شامی نے مندرجہ ذیل بات نقل کی ہے۔

والمسجد ‌وإن ‌كبر لا يمنع الفاصل إلا في الجامع القديم بخوارزم، فإن ربعه كان على أربعة آلاف أسطوانة وجامع القدس الشريف أعني ما يشتمل على المساجد الثلاثة الأقصى والصخرة والبيضاء، كذا في البزازية

پس مذکورہ تحقیق کے موافق پاکستان بھر میں اس قسم کی کوئی مسجد نہیں۔نیز عالمگیری میں جب یہ جزئیہ مل جاتا ہے کہ مسجد خواہ کتنی ہی بڑی ہو اس میں فاصلہ مانع از اقتداء نہیں۔اس کیے مسجد میں مطلقا فاصلہ کو اقتداء سے مانع نہ کہا جائے،خواہ صفیں متصل ہوں یا نہ،لہذا اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔

فتاویٰ رحیمیہ(137/5)میں ہے:

سوال:نماز تراویح میں پہلی صف میں  جگہ ہوتے ہوئے بھی دوسری صف میں کھڑارہے تو کیا حکم ہے؟

جواب:پہلی صف میں جگہ ہونے کی صورت میں دوسری صف میں کھڑا رہنا مکروہ اور منع ہے ۔صف اولیٰ پر ہو جائے تو صف ثانی میں کھڑا ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved