• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بغیر عیب بتائے چیز کم قیمت پر فروخت کرنا

استفتاء

کسی دکاندار کے پاس کوئی عیب دار چیز ہے جسے وہ بیچنا چاہتا ہے۔ اگر وہ عیب بتلا کر بیچے گا تو وہ چیز بکے گی نہیں اور اگر عیب نہیں بتائے گا تو گنہگار ہوگا۔ اس کا حل وہ یوں کرتا ہے کہ خریدار کو عیب بتائے بغیر وہ چیز سستے داموں (یعنی عیب کی موجودگی میں جو اس کا ریٹ بنتا ہے اس پر) بیچ دیتا ہے تو کیا اس طریقے سے بیچنا اس کے لیے جائز ہوگا؟ اور یہ جو حدیث میں ہے: “من باع عيبا لم يبينه لم يزل في مقت الله أو تلعنه الملائكة“(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 2247) تو کیا یہ شخص اس حدیث کی وعید میں داخل ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عیب بتائے بغیر چیز بیچنا جائز نہیں اور بیچنے والا حدیث مذکور کے مصداق میں داخل ہوگا ۔

تو جیہ: اگر شے میں کوئی عیب ہو تو بائع پر اس عیب کا بیان کر دینا واجب ہے یا پھر بوقت بیع یوں کہہ دے کہ اسے ابھی اچھی طرح دیکھ بھال لو بعد میں ذمہ دار نہ ہوں گا۔ بغیر عیب بتائے یا بغیر عیوب سے براءت کا اظہار کیے بیچنا جائز نہیں۔ قیمت کم کر دینے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ مشتری اس (کم) ریٹ پر بغیر عیب والی چیز خریدنے پر راضی ہوا ہے نہ کہ عیب والی چیز۔

الدر المختار مع رد المحتار (7/230) میں ہے:

لا يحل ‌كتمان ‌العيب في مبيع أو ثمن لأن الغش حرام إلا في مسألتين. الأولى: الأسير إذا شرى شيئا ثمة ودفع الثمن مغشوشا جاز إن كان حرا لا عبدا. الثانية: يجوز إعطاء الزيوف والناقص في الجبايات أشباه.

قوله:(لأن الغش حرام) ذكر في البحر أول الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته

شامی (7/230) میں ہے:

‌‌مطلب في جملة ما يسقط به الخيار، تنبيه: قال في البحر وإلى هنا ظهر أن خيار العيب يسقط بالعلم به وقت البيع أو وقت القبض أو الرضا به بعدهما أو اشتراط البراءة من كل عيب، أو الصلح على شيء أو الإقرار بأن لا عيب به إذا عينه

التنویر شرح الجامع الصغیر (10/157) میں ہے:

(‌من ‌باع ‌عيبًا) أي معيوبا كضرب الأمير أي مضروبة (لم يبينه) أي للمشترى والضمير عائد إلى العيب باعتبار لفظه لا إلى المعيوب الذي هو مراد به استخدام (لم يزل في مقت الله) غضبه الشديد لغشه لأخيه ومن غشنا ليس منا (ولم تزل الملائكة تلعنه) لما أتاه من القبيح ففيه وجوب بيان البائع للمشتري ما في العين التي يبيعها منه من العيب وكذا يجب على من علم ذلك العيب إعلام المشتري فإن الدين النصيحة

امداد الفتاوی جدید (6/334) میں ہے:

سوال:گھوڑے میں شرعاً کوئی عیب نہیں ہے مگر عرفاً اس کے عیوب بہت بتلائے جاتے ہیں ، مسلمان کو گھوڑا بیچنے کی ضرورت ہے اگر اس عرفی عیب کو ظاہر کرتا ہے تو نقصان کا اندیشہ ہے، اگر اس عیب کو ظاہر نہ کرے تو شرعاً گنہگار تو نہ ہوگا؟

الجواب: في الدرالمختار، باب الخیار عن القنية: لوظهرأن الدار مشومة ینبغي أن یتمکن من الرد؛ لأن الناس لا یرغبون فيها.اس سے معلوم ہوا کہ عیوب عرفیہ کو بھی ظاہر کرنا واجب ہے یا یوں کہہ دے کہ ہم کسی عیب کے ذمہ دارنہیں۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند (14/373) میں ہے:

سوال: یہاں پر چمڑے پکائے جاتے ہیں۔ جب پک جاتے ہیں تو ان کو سکھاتے ہیں اور کسی قدر نمی باقی رکھتے ہیں تاکہ وزن زیادہ ہو۔ جب کوئی گاہک آتا ہے اس سے ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ سوکھے ہوئے ہیں۔ گاہک بدرجہ مجبوری خرید لیتے ہیں ۔عیب کا چھپانا اور ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور گاہک کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ چمڑے گیلے ہیں۔

الجواب: بائع کو عیب کا چھپانا حرام ہے۔ قال في البحر: إن خيار العيب يسقط بالعلم به وقت البيع الخ وقال صاحب الدر المختار لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن لأن الغش حرام انتهى. اس صورت میں خیار عیب باقی نہیں رہتا۔ قال الشامي فاذا رضيه المشتري لا خيار له لأنه قبله بكل عيب الخ اور رضائے عیب کے لیے زبان سے کہنا ضروری نہیں بلکہ علم کافی ہے كما قال الشامي إن الرضا بالعيب لا يلزم أن يكون بالقول الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved