- فتوی نمبر: 32-72
- تاریخ: 07 اپریل 2025
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری > الاجیر الخاص
استفتاء
مفتی صاحب اگر آدمی ایک ملازم مقررہ تنخواہ پر رکھے اور اسکی تنخواہ میں سے کچھ رقم دبا کر رکھے اس ڈر سے کہ ملازم بھاگ نہ جائے اور اس سے یہ بھی کہہ دے کہ اگر تو نے جانا ہے تو مجھے اپنی جگہ پر کوئی بندہ دیکر جانا وگرنہ تجھے یہ قبضہ شدہ رقم نہیں ملے گی تو اگر وہ اس شرط پر راضی ہوجائے تو کیا مسئلہ ہے؟ اور اگر وہ راضی نہ ہو تو پھر کیا مسئلہ ہے؟ نیز راضی نہ ہونے والی صورت میں اگر وہ چھوڑتا ہے تو اس میں مالک کا نقصان ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: 1۔ملازم کا کام کیا ہے؟ 2۔اور مالک کا کیا نقصان ہوگا؟
جواب وضاحت: 1۔ ملازم بھینسوں کو چارہ وغیرہ ڈالتا ہے۔ 2 مالک کا نقصان یہ ہوگا کہ اگلا بندہ نہ ملنے کیوجہ سے جانور کمزور ہوجائیں گے اور انکا دودھ کم ہوجائے گا کیونکہ مالک اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے خود یہ کام نہیں سنبھال سکتا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر ملازم اس شرط پر راضی ہوجائے اور اپنی جگہ بندہ دیئے بغیر چلا جائے تو اس کی قبضہ شدہ رقم کو کچھ عرصہ دبا کر رکھنے کی گنجائش ہے تاہم کچھ عرصہ گذرنے کے بعد یہ رقم اس ملازم کو واپس کرنا ضروری ہے اور اگر وہ ملازم اس شرط پر شروع سے راضی نہ ہوا ہو اور پھر وہ اپنی جگہ پر بندہ دیئے بغیر چلا جائے تو اس صورت میں اس کی قبضہ کی ہوئی رقم کو روکنا اور دبا کر رکھنا جائز نہیں۔
البتہ اگر اس ملازم سے شروع میں یہ عہد لیا جائے کہ اگر وہ اپنی جگہ کوئی بندہ دیئے بغیر چلا گیا تو اس کی قبضہ کی ہوئی رقم کسی مسجد میں دے دی جائے گی تو یہ صورت جائز ہوسکتی ہے اور اس صورت میں اس کے اپنی جگہ کوئی بندہ دیئے بغیر چلے جانے کی صورت میں اس کی قبضہ کی ہوئی رقم مسجد میں دے دی جائے اپنے پاس نہ رکھی جائے۔
شامی (4/ 61)میں ہے:
مطلب في التعزير بأخذ المال قوله ( لا بأخذ مال في المذهب ) قال في الفتح وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز اه ومثله في المعراج وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف قال في الشرنبلالية ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اه ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان
قوله ( وفيه الخ ) أي في البحر حيث قال وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عند مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ ورأى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى وفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.
درر الحکام (الماده: 84) میں ہے:
المواعيد بصور التعاليق تکون لازمة لانه يظهر حينئذٍ معنی الالتزام والتعهد.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved