• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بغیر گواہوں کے کیے ہوئے نکاح کاحکم

استفتاء

میری بہن کی کسی لڑکے سے دوستی ہو گئی، لڑکے نے نکاح کا کہا مذاق میں ،لڑکی نے کہا کہ نکاح کیسے ہوگا ؟لڑکے نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو گواہ بنا کر نکاح ہو جاتا ہے، دوبار اپنا نام لیا اورپوچھا قبول ہے ؟لڑکی نے بھی دوبار کہا منظور ہے۔

کیا اس سے نکاح ہو جاتا ہے ؟اب میری بہن کی شادی کہیں اور ہو چکی ہے مگر پل پل اسے خیال ستاتا ہے کہیں میں اس لڑکے کے نکاح میں تو نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

نکاح منعقد ہونے کے لیے دولہا و دلہن کی جانب سے ایجاب و قبول کرتے وقت شرعی گواہوں (دو مرد یا ایک مرد دو عورتوں) کا موجود ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے، پس گواہوں کی غیر موجودگی میں اللہ کو گواہ بنا کر ایجاب و قبول کرنے سے شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوتا۔

سنن الترمذی میں ہے:

’’رَوَى أَصْحَابُ قَتَادَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: لَا نِكَاحَ إِلَّا بِبَيِّنَةٍ ‘‘. ( بَابُ مَا جَاءَ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِبَيِّنَةٍ،٣/ ٤٠٣، رقم الحديث: ١١٠٤)

الفتاوى الهندية (1/ 268):

"ومن تزوج امرأةً بشهادة الله ورسوله لايجوز النكاح، كذا في التجنيس والمزيد”

’’(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب‘‘. (الدر المختار شرح تنوير الأبصار، كتاب النكاح، ١/ ١٧٨) 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved