• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بغیر گواہوں کے نکاح کرنا

استفتاء

کیا فرماتےہیں علمائے  کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل ایک پوسٹ چل رہی ہے کہ اگر لڑکا  اور لڑکی گواہان اور مولوی کی غیر موجودگی  میں  خود  زبانی  ایجاب  و  قبول  کریں تو باقاعدہ نکاح تصور ہوگا  باطل نہ ہوگا۔ کیا مذکورہ پوسٹ درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ پوسٹ درست نہیں کیونکہ جس طرح نکاح کے صحیح (باقاعدہ نکاح) ہونےکےلیے ایجاب قبول ضروری ہےاسی طرح گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے اور جوعورتیں بغیر گواہوں کے نکاح کرتی ہیں انہیں حدیث میں”بغایا”(زانیہ) کہا گیا ہے۔

سننِ ترمذی(284/2) میں ہے:

عن ابن عباس رضى الله عنهما ان النبي صلى الله عليه وسلم قال البغايا اللاتى ينكحن انفسهن بغير بينة.

ترجمہ: حضرت ابن عباسؓ حضور اکرمﷺسے روایت کرتے ہیں کہ جو عورتیں اپنا نکاح بغیر گواہوں کے کرتی ہیں وہ زانیہ ہیں۔

مؤطا امام محمد(421/1) میں ہے:

عن أبي الزبير أن عمررضي الله عنه اتى برجل في نكاح لم يشهد عليه الا رجل وامرأة، فقال عمر: هذا نكاح السر ولانجيزه، ولو كنت تقدمت فيه لرجمت.

ترجمہ:حضرت ابوالزبیر رحمہ اللہ تعالی سے مروی ہےکہ  حضرت عمرؓ کی خدمت میں ایک آدمی لایا گیاجس کے نکاح میں ایک مرد اور ایک عورت کے علاوہ کوئی گواہ نہیں تھا اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ یہ خفیہ نکاح ہے اسے ہم جائز نہیں سمجھتے اگر میں اس مسئلہ کو پہلے بیان کرچکا ہوتا تو میں ان کو سنگسارکرتا۔

سننِ الدارقطنی(342/4) میں ہے:

عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لا نكاح إلا بولي وشاهدي عدل.

حضرت عائشہ ؓحضوراکرمﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ  ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved