- فتوی نمبر: 9-250
- تاریخ: 20 فروری 2017
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
*** کی زیرِ نظر برانچ میں اگر کوئی طالب علم اطلاع دئے بغیر چھوڑ جاتا ہے اور اپنی بقیہ فیس وغیرہ کے لئے بھی کوئی کلیم نہیں کرتا ت*** کی طرف سے اس کی فیس وغیرہ کے علیحدہ حساب کا کوئی ایسا نظام نہیں ہے جس کے ذریعے دیکھا جائے کہ کس طالب علم نے کلاسیں نہیں لیں اور اس کی فیس کو فریز کرنا ہے۔ جب وہ طالب علم کلیم کرتا ہے اس وقت دیکھا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا حساب کتاب کرنا ہے۔لیکن اُس طالب علم کا کلیم قابل قبول ہوتا ہے جس نے پہلے سے اسکول کو مطلع کیا ہو کہ مثلاً وہ فلاں تاریخ سے کلاس میں نہیں آئے گا، کیونکہ اسکول میں مستقل حاضری کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
کیا مذکورہ طرز عمل شرعاً درست ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
***کو فیس کی مد میں جو ایڈوانس رقم ملتی ہے، وہ اس کی ملکیت ہے اور حسب صوابدید اس کے لیے کوئی سا قانون بھی بنایا جا سکتا ہے، البتہ عذر معقول کی وجہ سے پڑھائی چھوڑنے والے طالب علم کو بقایا فیس ری فنڈ کرنا شرعاً لازم ہے، جب کہ بغیر عذر کے پڑھائی چھوڑنے والے طالب علم کو فیس ری فنڈ کرنا اسکول کے ذمہ لازم نہیں۔
لما في بدائع: (٤/٥٨) مکتبه دار الاحیاء التراث العربی:
(فصل في صفة الإجارة) (فصل) وأما صفة الإجارة فالإجارة عقد لازم إذا وقعت صحیحة عریة عن خیار الشرط والعیب والرؤیة عند عامة العلماء، فلا تفسخ من غیر عذر وقال شریح: إنها غیر لازمة وتفسخ بلا عذر؛ لأنها إباحة المنفعة فأشبهت الإعارة، ولنا أنها تملیک المنفعة بعوض فأشبهت البیع وقال – سبحانه وتعالی۔ (أوفوا بالعقود) (المائدة: 1) والفسخ لیس من الیفاء بالعقد وقال عمر: – رضی الله عنه – ” البیع صفقة أو خیار ” جعل البیع نوعین: نوعاً لا خیار فیه، ونوعاً فیه خیار، والإجارة بیع فیجب أن تکون نوعین، نوعاً لیس فیه خیار الفسخ، ونوعا فیه خیار الفسخ؛ ولأنها معاوضة عقدت مطلقة فلا ینفرد أحد العاقدین فیها بالفسخ لا عند العجز عن المضي في موجب العقد من غیر تحمل ضرر کالبیع.
ولما فی بدائع (٤/٦٣) در احیاء التراث العربی
و ملک الآجر البدل حتی تجوز له هبته والتصدق به والإبراء عنه والشراء والرهن والکفالة وکل تصرف یملک البائع في البیاعات…………. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved