- فتوی نمبر: 5-137
- تاریخ: 26 جولائی 2012
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
صاحب جائیداد: *** ان کے تین بیٹے*** ، ***، *** اور پانچ بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے مندرجہ ذیل جائیداد خریدی تھی۔
1۔ دکان بمقام ***پانی والہ تالاب بنام ***( صاحب جائیداد )
نوٹ: یہ دکان انہوں نے اپنے بڑے بیٹے عبد الواحد کو مارکیٹ کی قیمت سے کم میں فروخت کر دی تھی اور رجسٹری کر دی گئی۔
2۔ مکان بمقام رنگ محل ***نے خود خرید کر بیٹوں کے نام کر دیابنام *** اور *** ( پسران ***) اور اس میں ***مع اہل و عیال رہائش پذیر تھا۔
3۔ مکان بمقام شاہدرہ بنام ***( صاحب جائیداد ) مذکورہ مکان کرایہ پر تھا۔
4۔ مکان بمقام شاہدرہ بنام *** ( پسران ***) لیکن *** کو قبضہ نہیں دیا گیا تھا۔ مذکورہ مکان کرایہ پر تھا۔
5۔ ایک عدد گودام بمقام پانی والا تلاب 2 بیٹے *** اور *** اور دو عدد بیٹیوں رخسانہ اور فرحت کے نام سے خریدا گیا، جو کہ کاروبار کے استعمال میں تھا۔
6۔ ایک عدد مکان گلی بھینگناں سوہا بازار جو کہ اپنی زندگی میں حافظ ***نے اپنے بیٹے کو (** ) فروخت کر دیا تھا اور رجسٹری کروائی تھی اور منتقل ہوگئے۔
7۔ مکان بمقام گلشن راوی پلاٹ بنام *** اور *** ( پسران ) عبد الصمدکے نام خرید کر ***نے اپنی زندگی میں اپنی آمدنی سے مکان تعمیر کروایا اور وہ اپنی زندگی میں رہائش اختیار ( بغیر کسی عذر کے ) نہ کر سکے۔ انتقال کے 5 سال بعد اس مکان میں بقیہ خاندان منتقل ہوا۔
8۔ ذاتی طور پر وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ ایک کرایہ کی دکان میں کاروبار کرتے تھے۔ اس کاروبار سے تمام اخراجات اور جائیداد خریدی گئی اور ان کے انتقال کے بعد اسی کاروبار سے مذکورہ دکان پرانے کرایہ داری کی بنیاد پر کئی گنا کم قیمت میں خریدی گئی۔ مزید یہ مذکورہ دکان ***کے انتقال کے 15 سال کے بعد خریدی گئی اور اس رقم کا کچھ حصہ دونوں بیٹوں *** اور *** کی بیگمات کے زیور بیچ کر ادا کیے گئے۔
اس صورت میں شرعی رائے یہ معلوم کرنی ہے کہ جائیداد کی تقسیم کس طرح ہونی چاہیے۔
نوٹ: مندرجہ بالا جائیداد جو کہ ***صاحب نے مختلف اولادوں کے نام سے خریدی تھیں، انہیں اپنی زندگی میں ان کا مالک نہیں بنایا۔ اور نہ ہی کبھی اپنی زندگی میں کہا کہ یہ تمہاری ہیں۔ ماسوائے عبد الواحد صاحب ( بڑے بیٹے ) جو کہ ان کو رجسٹری کروا دیں تھیں۔ مذکورہ دکان کی اس وقت مارکیٹ کی قیمت 50 لاکھ تک تھی لیکن وہ چودہ لاکھ میں خریدی گئی۔ خریداری میں پیسہ دیا گیا وہ پیسہ اسی کاروبار کی آمدنی تھی جو دکان میں لگا ہوا تھا۔ جب پیسہ کم پڑا تو *** اور *** کی بیویوں کے تقریباً 25 اور 30 تولے زیور ملا کر رقم پوری کی گئی۔
واضح رہے کہ دکان میں لگا سرمایہ سارا ***( مرحوم دادا ) کا اپنا تھا، بیٹے بس وقت دیتے تھے اور کام کرتے تھے۔ جوائنٹ فیملی تھی اس لیے گھر کے تمام اخراجات وغیرہ اسی سے پورے ہوتے تھے۔
نوٹ: مرحوم کی وفات کے وقت باقی تمام ورثاء بالغ تھے، البتہ دو بچیاں نابالغ تھیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جائیداد نمبر 1 اور نمبر 6*** کی ہیں۔
باقی سب جائیدادیں اور کاروبار تمام وارثوں میں مشترک ہیں البتہ جس دکان میں *** اور *** کی بیویوں کا زیور لگا ہے اس میں وہ اپنے اپنے زیور کی مالیت کے بقدر شریک ہوں گی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved