• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بغیر پڑھے تین طلاقوں پر دستخط کرنا

استفتاء

میں مسمی ڈاکٹر **** ولد **** ۔۔۔ حلفاً مندرجہ ذیل گذار شات کرتا ہوں۔

میں نے اپنی بیوی مسماة **** جو ناراضگی میں اپنے والدین کے گھر تین ماہ سے کراچی گئی ہوئی تھی کو سرزنش یا وارننگ دینے کے لیے ایک نوٹس بھیجنا چاہا کہ وہ مجھ سے رابطہ کریں اور مصالحت کی راہ نکلے۔

اس غرض سے میں نے ٹاؤن کمیٹی کے **** سے اور اپنے بہنوئی **** کو نوٹس بنانے کو کہا۔ ****

نے نوٹس بنا کر **** کو دیا اور مجھ سے دستخط کرانے میرے کلینک آگیا۔ چونکہ میرے پاس کلینک پر مریض بیٹھے تھے اور میں اس تحریر کو ان کے سامنے پڑھنا نہیں چاہتا تھا اس لیے میں نے **** کے مطالبہ پر فوراً دستخط کر دیے اور کہا کہ ایک کاپی مجھے دے دینا جس کی کاپی مجھے دے دی۔ بعد میں میں نے کاپی کو پڑھا تو اس میں تین طلاق کا درج تھا میں نے تحریر صرف یہاں تک پڑھی اور فوراً کلرک کو فون کیا تو اس نے مجھے وضاحت دی کہ عائلہ قوانین کے تحت یہ تحریر ایسی ہوتی ہے اور آپ کی نیت چونکہ وارننگ اور ایک طلاق کی ہے لہذا ایک طلاق ہوگی اور 90 دن  میں رجوع کا حق ہوگا۔ میں نے بہنوئی **** سے کہا کہ اس کاغذ کو پوسٹ نہ کرے جب تک اس میں ضروری رد و بدل نہ کرے لیکن **** نے کلرک کی وضاحت کو فوقیت دیتے ہوئے اس کو پوسٹ کردیا۔

عرض ہے کہ چونکہ میں نے اپنے بہنوئی کی فراست پر یقین کرتے ہوئے دستخط کیے تھے اور تحریر پڑھنے کی زحمت گوارہ نہ کی اور پھر کاغذ کو پوسٹ کرنے سے منع بھی کیا کہ رد و بدل کے بغیر ایسا نہ کرے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ میں اور میری زوجہ میں مصالحت ہوگئی ہے اور رجوع کا ارادہ رکھتے ہیں۔ براہ کرم ہماری رہنمائی قران و سنت کی روشنی میں فرمائیں۔ ( ****)

بہنوئی کا بیان

میں **** ولد**** حلفاً درجہ ذیل گذارشات کرتا ہوں۔

کہ میں نے ٹاؤن کمیٹی کے **** سے ڈاکٹر**** ولد **** کے لیے ایک نوٹس برائے **** زوجہ ڈاکٹر**** تیار کرنے کو کہا تاکہ وہ ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کریں اور صلح صفائی کی کوئی صورت نکلے۔ **** تین ماہ سے اپنے والدین کے گھر ناراض ہو کر گئی وہئ تھی۔ خوشی محمد کو یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ غرض طلاق نہیں بلکہ وارننگ ہے۔ اس نے نوٹس تیار کیا اور میں دستخط کرانے کے لیے ڈاکٹر **** کے کلینک پر چلا گیا، مریضوں کی موجودگی میں انہوں نے دستخط کیے اور کہا کہ اس کی ایک کاپی مجھے دے جاؤ تاکہ ریکارڈ رہے۔ انہوں نے دستخط میرے کہنے پر پڑھے بغیر کیے، کیونکہ میں نے اس کو واضح کیا تھا کہ ایک طلاق کا نوٹس ہے۔ میں نے انہیں اس کی ایک فوٹو کاپی پہنچائی تو کچھ دیر بعد اس کا فون آیا کہ اس پر تو تین طلاقوں کا ذکر ہے۔ انہوں نے اور میں نے خود **** سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ عائلی قوانین کے تحت نوٹس ایسا ہی بنتا ہےاور آپ نوے دن میں نوٹس واپس لے سکتے ہیں۔ میں مطمئن  ہوگیا لیکن ڈاکٹر صاحب نے مجھے فون پر کہا کہ اس کو پوسٹ نہ کرنا کیونکہ ضروری رد و بدل کے بعد ہی بھیجیں گے، لیکن کلرک نے مجھے اس طرح یقین دلایا کہ میں نے ڈاکٹر صاحب کے منع کے باوجود اس مسئلے کو فوراً حل کرنے کی غرض سے پوسٹ کردیا۔ اس میں ڈاکٹر **** نے بغیر پڑھے مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے اور مریضوں سے صیغہ راز میں رکھنے کی غرض سے دستخط کیے اور پھر مجھے واضح طور پر ارسال نہ کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن کلرک کی غلط بیانئی کی وجہ سے اور مشروط واپسی اور ناواقفیت کی وجہ سے میں نے ارسال کردی۔

یہ تمام تحریر حلفاً کر رہا ہوں اور کسی بھی جگہ کسی کے بھی سامنے اپنے بیان کی تصدیق کے لیے حاضر ہوسکتا ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر مذکورہ سب باتیں ایسے ہی ہیں جیسا کہ لکھا ہے تو صرف ایک طلاق واقع ہوئی، تین نہیں ہوں گی۔ اور شوہر عدت کے اندر رجوع کرسکتا ہے یعنی اگر یوں کہدے کہ میں نے اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں باقی رکھا تو رجوع ہو جائے گا اور اگرچہ ایک طلاق شمار میں رہے گی لیکن مؤثر نہ رہے گی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved