- فتوی نمبر: 3-331
- تاریخ: 22 دسمبر 2010
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
*** مرحوم کی ایک جگہ تقریباً 13 کنال ایسی تھی جس کا مالیہ انہوں نے ادا نہ کیا۔ اور یہ سلسلہ کافی عرصہ تک یوں ہی چلتا رہا جس کی مدت پچاس سال ہے اور یہ قبضہ انہی کے پاس رہا۔ *** کے وارثوں کو جب اس بات کا علم ہوا۔ کہ جگہ ہمارے نام نہیں تو بعض وارثوں نے دوسرے بعض وارثوں کو یہ ترغیب دی کہ اس جگہ کو مدرسہ کے لیے وقف کر دیں تو اس جگہ پر کوئی بھی قبضہ نہ جما سکے گا ورنہ یہ جگہ ہمارے قبضہ میں بھی نہ آئے گی۔ لہذ ابعض وارثوں نے *** صاحب کی دوسری بیوی اور بیٹی سے نہ معلوم تحریر پر انگوٹھے کروالیے اور واضح رہے کہ یہ دونوں عورتیں ان پڑھ ہیں۔ اور کسی دوسرے فریق نے عدالت میں کیس دائر کر دیا اور اس کیس پر آنے والی لاگت اسی زمین اور اس کے قریب ایک اور زمین موجود تھی جس کے ٹھیکہ سے پوری کی گئی۔ اور پانچ سات سال سے کیس کا کوئی فیصلہ نہ ہوا اور جس شخص نے عدالت میں کیس دائر کیا اس نے وارثوں سے کہا کہ زمین مذکور کو آدھا آدھا تقسیم کرلیں۔ تو بعض وارثوں کی رضامندی سے ایسا کر دیا گیا جن میں ماں اور بیٹی شریک نہ تھے۔ بیٹی بہت زیادہ غریب تھی وہ پہلے بھی رضامند نہ تھی اور تاحال یہ ہے کہ اسے وقف کیا جائے یا آدھا آدھا تقسیم کیا جائے اور اس وقت تو اس کا شوہر بھی وفات پا گیا ہے۔ آدھی آدھی تقسیم کے دوران ہوگئی تو آدھی جگہ کیس دائر کر نے والوں کا وکیل لے گیا اور بقیہ نصف کی پلاٹنگ کی گئی اور اسی فریق نے *** مرحوم کی بیٹی کو کہا کہ یہ جگہ میں تقسیم کرتا ہوں اور زبردستی اس عورت کا کچھ حصہ مدرسہ کے لیے رکھ رہا ہے جبکہ یہ عورت رضامند نہ ہے اور کبھی کہتا ہے کہ تم اس جگہ کو فروخت کر دو اور جگہ کی قیمت رائج الوقت قیمت سے بہت کم دیتا ہے۔ جبکہ عورت راضی نہ ہے۔ اس عورت کی رضامندی کے بغیر اس کے مالیہ کے لیے جگہ کا ٹھیکہ دینا اور بغیر رضا مندی کے آدھی آدھی تقسیم کرنا اور اب جبراً مدرسہ کے لیے وقف کر وانا یا کم قیمت فروخت کرنے کے لیے کہنا شرعاً کیسا ہے؟ تفصیل مطلوب ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۔ کسی بھی شریک کی رضامندی کے بغیر اس کے حصے کو وقف کرنا یا رائج قیمت سے کم پر فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ گناہ کا کام ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved