- فتوی نمبر: 34-54
- تاریخ: 10 ستمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان > روٹی، کپڑے اور رہائش کا بیان
استفتاء
میرےوالدین کی جدائی ہو گئی ہے (طلاق نہیں ہوئی). میری والدہ والد سے الگ ہوچکی ہیں ۔ میں امی کے ساتھ علیحدہ رہتا ہوں۔ اب میرا ابو سے ملنا جلنا ہے، لیکن ابو نہ امی کو پیسے دیتے ہیں اور نہ ہی میرے کھانے، رہائش اور تعلیم کے اخراجات دیتے ہیں۔
اس سے متعلق مجھے شرعی اور قانونی رہنمائی درکار ہے۔
1۔ کیا میری ذمہ داری میرے والد پر نہیں ہے؟ میری پہلی سوچ یہی ہے کہ مکمل چائلڈ کیئر والد پر ہوتی ہے۔ لیکن اگر مکمل نہ بھی ہو تو آدھی تو لازمی ہوگی ؟
2۔میری امی کی مالی مدد؟ اگر امی خود الگ ہوئی ہیں تو کیا اب ابو کی ذمہ داری ختم ہو گئی ہے؟ لیکن نکاح تو ابھی بھی باقی ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: (1) آپ کی عمر کتنی ہے؟ کیا آپ خود اپنے خرچے کا انتظام نہیں کر سکتے؟(2) آپ کی والدہ علیحدہ کیوں رہتی ہیں؟(3)آپ اپنے والد کے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟ (4) آپ کے والد کی ماہانہ آمدن کتنی ہے؟ (5)آپ کے ماہانہ تعلیمی اخراجات کتنے ہیں اور غیر تعلیمی اخراجات کتنے ہیں ؟ (6)آپ خود کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟ (7) اپنے والد کا رابطہ نمبر مہیا کریں۔
جواب وضاحت: (1)میری عمر 18 سال ہے میں ابھی اپنی تعلیم حاصل کر رہا ہوں جس کی فیس میرے والد نہیں دیتے ۔(2) میرے والدین کےنجی جھگڑوں کی وجہ سے والدہ الگ رہتی ہیں۔(3)میں اپنی والدہ کے ساتھ اس لیے رہتا ہوں کہ مجھے ان سے زیادہ قربت ہے اور مشکل وقت میں ان کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا ۔ (4) مجھے عین مطابق نہیں معلوم لیکن اندازاً 1 سے 2 لاکھ ہے۔(5) میرے ماہانہ تعلیمی اخراجات 50 ہزار ہیں اور غیر تعلیمی میں بنیادی روٹی کپڑا مکان کے علاوہ 10ہزار ہوں گے۔(6) میں ابھی اپنی مختلف یونیورسٹی کے لیے درخواست دے رہا ہوں جس کے لیے مجھے شہر چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ داخلے کے بعد اگر اسی طرح میرے والد نے کفالت کی ذمہ داری نہ اٹھائی تو انشاءاللہ ارادہ ہے کے کہ کچھ کمائی کی تلاش کی جائے لیکن تعلیم کے دوران کچھ زیادہ رقم کمانا مشکل ہوگا۔(7) میرے والد کا رابطہ نمبر: *********
والد کا بیان:
میرا ایک کاروبار تھا لیکن میرے ساتھ فراڈ ہوا جس کی وجہ سے وہ کاروبار بند ہو گیا۔ ایف آئی اے (FIA) کو میں نے بیل کروانے کے لیے ایک کروڑ 30 لاکھ روپے جمع کروائے ہیں جو میں نے اپنے بھائیوں وغیرہ سے قرض لیے تھے۔ میری بیوی سے میرے تعلقات خراب ہو گئے تھے جس کی وجہ سے وہ الگ ملتان میں رہتی ہیں۔ میں نے ایک پلاٹ اپنی بیوی کو گفٹ کیا تھا جس پر انہوں نے تعمیر کروا کر ایک کروڑ 20 لاکھ روپے کا فروخت کر دیا ہے۔ اسی طرح میری بیوی کی ایک اور پراپرٹی بھی ہے جو اس نے 1 کروڑ 80 لاکھ کی فروخت کر کے اس کی رقم بینک میں جمع کروا لی ہے جس سے وہ پرافٹ کماتی ہے۔ میرے بیٹے کا یہ مطالبہ ہے کہ مجھے خرچہ دیں تاکہ میں آگے پڑھائی کر سکوں جبکہ میں بہت مقروض ہوں اور ان کو ان کا حصہ دے چکا ہوں اور مزید ماہانہ پانچ ہزار روپے میں اپنے بیٹے کو بھیجتا ہوں اس لیے فی الحال میں مزید تعلیمی اخراجات نہیں اٹھا سکتا۔ میں نے اپنے بیٹے سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی چار سال کی پڑھائی میں سے دو سال کا خرچہ اپنی والدہ سے لے بقیہ دو سال کا خرچہ ان شاءاللہ میں ادا کروں گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ صورت میں آپ کے تعلیمی اخراجات کا خرچہ آپ کے والد کے ذمے نہیں ہے۔
تو جیہ: بچہ جب بالغ ہو جائے تو شرعاً اس کا خرچہ باپ کے ذمے نہیں رہتا بلکہ وہ خود محنت کر کے کمائے۔ البتہ بالغ ہونے کے بعد بھی اگر بچہ اس قابل نہ ہو کہ وہ خود کما سکے تو اس کا خرچہ اس کے باپ کے ذمے ہے۔ تا ہم اس خرچے میں صرف کھانے پینے رہائش لباس کا خرچہ باپ کی استعداد کے بقدر شامل ہے تعلیم کا خرچہ اس میں شامل نہیں ہے۔ چونکہ آپ کے والد فی الحال مقروض ہیں اور ان کی مالی حالت اچھی نہیں ہے اور وہ بقدر کفایت آپ کی مالی امداد کر رہے ہیں لہذا آپ کی تعلیم کا خرچہ آپ کے والد کے ذمے نہیں ہے ۔
ہندیہ (34/3)میں ہے:
ولا يجب عليه نفقه الذكور الكبار الا ان يكون الولد عاجزا عن الكسب لزمانة فتكون نفقته على والده ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهو بمنزله العاجز لأن من لا يحسن العمل لا يستاجره الناس. قال الشيخ الامام شمس الأئمة الحلواني رحمه الله تعالى: وقد لا يقدر الرجل الصحيح على الكسب لحرفة او لكونه من اهل البيوتات فاذا كان هكذا كانت نفقته على والده وان كانت له قوة العمل.
تفسیر القرطبی (18/ 170) میں ہے:
لينفق ذو سعة من سعته ………. أي لينفق الزوج على زوجته وعلى ولده الصغير على قدر وسعه حتى يوسع عليهما إذا كان موسعا عليه. ومن كان فقيرا فعلى قدر ذلك
بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع (4/ 38)میں ہے:
وأما بيان مقدار الواجب من هذه النفقة فنفقة الأقارب مقدرة بالكفاية بلا خلاف؛ لأنها تجب للحاجة فتتقدر بقدر الحاجة وكل من وجبت عليه نفقة غيره يجب عليه له المأكل والمشرب والملبس والسكنى والرضاع إن كان رضيعا؛ لأن وجوبها للكفاية والكفاية تتعلق بهذه الأشياء فإن كان للمنفق عليه خادم يحتاج إلى خدمته تفرض له أيضا؛ لأن ذلك من جملة الكفاية.
2۔ اگر عورت شوہر کی اجازت کے ساتھ کسی دوسری جگہ قیام کرتی ہے تو اس کا خرچہ شوہر کے ذمے ہے لیکن اگر وہ شوہر کی اجازت کے بغیر قیام کرے یا شوہر کے بلانے کے باوجود واپس شوہر کے پاس نہ آئے تو وہ شرعاً نان نفقہ کی مستحق نہیں ہے۔
مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر(488/1) میں ہے:
(ولا نفقة لناشزة) اي عاصية ما دامت على تلك الحالة…( خرجت من بيته بغير حق وإذن من الشرع) قيد به لانها لو خرجت بحق… لم تكن ناشزة.
فتاوی محمودیہ (433/13)میں ہے:
جبکہ زید نے اپنی زوجہ کو خود میکے بھیجا ہے تو جب زید کی اجازت سے میکے رہے وہ نان نفقہ کی مستحق ہے البتہ اگر بغیر اجازت کے گئی یا اجازت سے جانے کے بعد باوجود زید کے بلانے کے نہیں آئی بلکہ بلا اجازت میکے میں رہی تو وہ شرعی نان نفقہ کی مستحق نہیں ہے جب شوہر کے مکان پر آجائے گی تب مستحق ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved