- فتوی نمبر: 7-353
- تاریخ: 15 ستمبر 2015
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
غلہ منڈی میں آڑھتی حضرات بعض اوقات مال خرید کر اپنے پاس جمع کر لیتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد جب سٹاک شدہ مال فروخت کیا جائے گا تو اس وقت جو ریٹ ہو گا، اس کے مطابق قیمت لگے گی۔ ایسا نہیں ہو گا کہ جس قیمت پر زمیندار سے لیا ہے اسی قیمت پر معاملے کرے۔ آڑھتی اگر یہ مال منڈی ہی کے کسی دوسرے آڑھتی کو فروخت کرے گا، تو اس سے کمیشن نہیں لے گا بلکہ جو ریٹ لگے گا بس وہی وصول کرے گا۔ لیکن اگر باہر کے کسی بیوپاری کو فروخت کرے گا تو قیمت کے ساتھ 3% کمیشن بھی لے گا مثلاً اگر مال کی قیمت ایک لاکھ ہے تو ایک لاکھ 3 ہزار وصول کرے گا۔
(1) کیا مذکورہ بالا طریقہ کار میں باہر کے بیوپاری سے قیمت کے ساتھ کمیشن وصول کرنا جائزہے ؟
(2) کیا غلہ منڈی (تلہ گنگ) اور باہر کے کسی بیوپاری میں کمیشن کے معاملے میں فرق کرنا درست ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ غلہ منڈی تلہ گنگ کا آڑھتی اگر باہر کے بیوپاری کو مال فروخت کرے تو اس سے تین فیصد کمیشن کے نام سے جو رقم وصول کی جاتی ہے یہ فقہی اعتبار سے قیمت میں زیادتی (اضافہ) ہے۔ جو کہ خریدار کی دلی رضا مندی کے بغیر اس سے لینا درست نہیں جب کہ سوال میں مذکورہ صورتحال میں چونکہ یہ رقم کمیشن کے نام سے لی جا رہی ہے اور خریدار اپنے آپ کو بہر صورت اس کی ادائیگی کا پابند سمجھتا ہے اور غلہ منڈی کا آڑھتی (فروخت کنندہ) اس کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ لہٰذا اس کی متبادل صورت یہ اختیار کی جا سکتی ہے کہ کمیشن کے نام سے رقم کی وصولی نہ کی جائے بلکہ مال کی قیمت طے کرتے وقت ہی کمیشن کے بقدر رقم کو بھی اصل قیمت کا حصہ بنا کر سودا کیا جائے۔ مثلاً مال کی قیمت اگر ایک لاکھ طے ہو رہی ہے۔ اور 3% کمیشن کی رقم تین ہزار روپے بنتی ہے تو شروع سے ہی مال کی قیمت ایک لاکھ تین ہزار روپے رکھی جائے اور کمیشن کو ختم کر دیا جائے۔
2۔ قیمت فروخت مختلف گاہکوں کے لحاظ سے مختلف رکھی جا سکتی ہے۔ لہٰذا غلہ منڈی کے آڑھتی یا باہر کے بیوپاری کو مال فروخت کرنے میں قیمت میں کمی بیشی شرعاً درست ہے۔
(١) درر الحکام: (١/٢٤٢) (المادة: ٢٥٧)
زیادة البائع في المبیع والمشتری في الثمن و تنزیل البائع من الثمن بعد العقد تلحق بأصل العقد یعني یصیر کأن العقد وقع علی ماحصل بعد الزیادة والحط۔
(٢) بحوث فی قضایا فقهیة: (١/٨)
وللتجار ملاحظ مختلفة في تعیین الأثمان و تقدیرها، فربما تختلف أثمان البضاعة الواحدة باختلاف الأحوال، ولا یمنع الشرع من ان یبیع المرٔ سلعته بثمن في حالة و بثمن آخر في حالة أخری۔ والله تعالیٰ اعلم بالصواب
© Copyright 2024, All Rights Reserved