• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

باہر سے مال منگوانے کی صورت میں سفارش پر بینک منیجر کو کچھ دینا

استفتاء

بندہ چائنہ سے سبزی کا کاروبار کرتا ہے۔ اور سامان سیل کو نٹریکٹ کی بنیاد پر منگواتا ہے۔

سیل کونٹریکٹ

سیل کونٹریکٹ یہ ہوتا ہے کہ بائع ومشتری آپس میں خریداری کا معاہدہ کرتے ہیں۔ شرائط طے کرتے ہیں۔ البتہ پیسوں کے لین دین اور مال کی وصولی کے لیے بینکوں کو بیچ میں ڈالا جاتا ہے۔

بینک کو بیچ میں ڈالنے کا یہ طریقہ ایل سی کے طریقہ سے تھوڑا سا مختلف ہے۔ وہ فرق یہ  ہے کہ

1۔ ایل سی کھولنے کے لیے بینک پہلے مشتری کا سابقہ ریکارڈ دیکھ کر اس کی حد بندی کرتا ہے کہ 5000 ڈالر یا 10000 ڈالر۔ بینک اس سے زائد کی ایل سی نہیں کھولتا، کیونکہ ایل سی میں کاغذات آنے پر اگر بائع کی طرف سے آپس کی طے شدہ شرائط کی خلاف ورزی نہ پائی جارہی ہو تو بینک از خود ادائیگی کرتا ہے اور مال اٹھاتا ہے۔

2۔ سیل کونٹریکٹ میں بینک مشتری کی حد بندی نہیں کرتا، مشتری بائع کو راضی کر کے جتنے کا مرضی مال منگوائے۔ بینک کا کام یہ ہوتا ہے کہ اگر مشتری ادائیگی کر دے تو اصل کاغذات مشتری کے حوالہ کر دیتا ہے تاکہ وہ بندرگاہ سے مال چھڑوا لے، کیونکہ اصل کاغذات کے بغیر بندر گاہ سے مال نہیں ملتا۔اور اگر مشتری ادائیگی نہیں کرتا، تو وہ بینک سے کہتا ہے کہ تم میری طرف سے ادائیگی کر دو تو یہ ادائیگی بینک پر لازمی نہیں ہوتی، البتہ اگر بینک مشتری کے کہنے پر ادائیگی کر دیتا ہے تو بینک مشتری سے اس ادائیگی پر ادا شدہ رقم کے 16 فیصد بطور چارجز کے مزید لیتا ہے۔ اور اگر بینک بھی ادائیگی پر تیار نہ ہو اور مشتری بھی کسی طرح ادائیگی کے لیے تیار نہ ہو، یا مشتری شروع سے ہی غائب ہو جائے،  تو ان دونوں صورتوں میں بینک اصل کاغذات واپس چائنہ بھیج  دیتا ہے۔ اس صورت میں مال خراب ہو جاتا ہے اور سارا نقصان بائع کا ہوتا ہے، اس لیے بینک ایل سی کے برعکس سیل کونٹریکٹ میں اپنا نفع/ چارجز ابتداء میں ہی سیل کونٹریکٹ کے کاغذات کی تیاری کے وقت وصول کر لیتا ہے۔ جب مشتری بینک کو پیسے دیتا ہے تو بینک مشتری کو اصل کاغذات دے دیتا ہے اور بینک وہ پیسے چائنہ میں بائع کے بینک کو بھیج دیتا ہے۔

بائع اور بائع کا چائنہ والا بینک دونوں انٹرنیٹ کے ذریعہ باخبر رہتے ہیں کہ کہیں پاکستانی بینک عالمی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بائع کو ادائیگی کیے بغیر مشتری کو اصل کاغذات دے کر مال بندرگاہ سے باہر تو نہیں نکال رہا۔

بعض اوقات یہ صورت پیش آتی ہے کہ مشتری کے پاس پیسوں کا بندوبست نہیں ہو رہا ہوتا۔ اور کاغذات آجانے کے بعد پانچ یوم کے اندر ادائیگی لازم ہوتی ہے۔ تو ضابطہ تو یہ ہے کہ یا تو بینک اپنے پاس سے ادائیگی پر راضی ہو جائے، لیکن اس صورت میں واپسی کے وقت 16 فیصد زائد دینا پڑے گا۔ یا پھر بینک اصل کاغذات واپس چائنہ بھیج دے، اس صورت میں ظاہر ہے کہ بائع کا نقصان ہے کہ اسے جہازراں کمپنی کا کرایہ ، مختلف ٹیکسز اور بینک کے چارجز تو بہر حال ادا کرنے پڑیں گے۔

لہذا اگر مشتری کو پیسوں کا بندوبست نہ ہونے کی ایسی صورت حال پیش آتی ہو تو ایک صورت اور ہے، جو کہ ضابطہ سے ہٹ کر ہے۔

وہ یہ ہے کہ میں اپنے بینک کا ایک بہت بڑا کسٹمر ہوں، بینک میری فیور کرنا چاہتا ہے، تو بینک کا منیجر چائنہ کے بینک کو ایک لیٹر لکھتا ہے کہ ہمارا کسٹمر اعتماد والا ہے، آپ کے پیسوں کا بندوبست 10 سے 15 دنوں میں کر دے گا۔ لہذا ہم چاہتے ہیں کہ اسے اصل کاغذات حوالہ کریں تاکہ وہ جلد از جلد پیسوں کا بندوبست کر لے۔

چائنہ کا بینک بائع کو وہ لیٹر دکھاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بائع اگر انکار کرے گا تو کاغذات واپس چائنہ آجائیں گے اور بائع کو مذکورہ بالا ادائیگیاں بھی کرنی پڑیں گی، تو کبھی کبھار ایسی صورت پیش آجانے سے بائع انکار نہیں کرتا اور بائع اور چائنہ کا بینک مصلحتاً خاموش رہتے ہیں اور مشتری کو بغیر پیسوں کی وصولی کے اصل کاغذات دینے پر اعتراض نہیں کرتے۔

نوٹ: ہماری فیور کا یہ طریقہ چونکہ بینک کے ضابطوں کے خلاف ہے اس لیے اگر آپ کسی بینک سے پوچھیں گے تو وہ آپ کو نہیں بتائے گا۔ اور نہ ہی ہمارا برانچ منیجر کسی کو عام طور سے یہ گُر سمجھاتا ہے۔

چونکہ ہم اس کے بہت بڑے کسٹمر ہیں، اس لیے وہ خاموشی سے ہمارے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے۔ اس لیے درخواست ہے کہ یہ سوال اور اس کا جواب کسی کو نہ دکھائیں، تاکہ ہمارا اور نہ ہی منیجر کا راز کھلے۔

سوال یہ ہے کہ منیجر جب ہمیں اس طریقہ سے فیور دلاتا ہے تو وہ کچھ خرچہ پانی کا طلبگار ہوتا ہے، تو کیا اس کی طلب پر ہم اگر خرچہ پانی دیں تو وہ سود شمار ہو گا؟ اگر کسی وقت منیجر بالکل تقاضا نہ کرے اور ہم چاہیں کہ اپنی خوشی سے اسے کچھ دے دیں تو یہ بھی سود ہو گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ صورت بینک منیجر کی بائع اور اس کے بینک سے مشتری کی سفارش کرنے کی ہے۔ سفارش پر اجرت طے کرنا جائز نہیں ہے۔ امداد الفتاویٰ میں ہے:

’’سوال: رسالہ الامداد میں ونیز پارسال رمضان میں میرے سامنے یہ امر قرار پایا تھا کہ اصل وکالت جائز ہے کہ وہ طاعت مختص بالمسلم نہیں اور اجرت لینا فقہاء نے طاعت مختص بالمسلم پر حرام لکھا ہے، اس لیے وکالت کی اجرت حلال ہے، اس بنا پر تو شفاعت وغیرہ پر اجرت لینا بھی حلال معلوم ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی مختص بالمسلم نہیں، کیونکہ وکالت جس طرح طاعت لغیرہ ہے اسی طرح شفاعت بھی تو طاعت لغیرہ ہے۔

الجواب: وجہ منع صرف اجرت علی الطاعۃ میں منحصر نہیں، یہ بھی احد الوجوہ ہے، دوسری وجہ منع کی اس عمل کا غیر متقوم

عند الشرع ہونا ہے، جیسا فقہاء نے اجارۂ لتجفیف الثیاب کو منع کہا ہے، پس شفاعت بھی شرعاً غیر متقوم ہے،

لأنه لم ينقل تقومه، وتقوم المنافع بغير القياس فما لم ينقل لا يجوز القول بتقومه وأيضاً فلا تعب في الشفاعة ولا يعطون الأجر عليها من حيث أنه عمل فيه مشقة بل من أنها مؤثرة بالوجاهة والوجاهة وصف غير متقوم، فجعلوا أخذ الأجر عليها رشوة وسحتاً.‘‘ (3/341)

البتہ اگر بینک منیجر بائع سے  آپ کی سفارش کرنے پر آپ سے کوئی تقاضا نہ کرے، پھر آپ اسے کچھ دے دیں، تو یہ جائز ہے، چاہے بینک منیجر کو ملنے کی امید ہو یا نہ ہو۔

… أما إذا كان بلا شرط، لكن يعلم يقيناً أنه إنما يهدي ليعينه عند السلطان، فمشائخنا على أنه لا بأس به، ولو قضى حاجته بلا شرط ولا طمع، فأهدى إليه بعد ذلك فهو حلال، لا بأس به، وما نقل عن ابن مسعود من كراهيته فورع. (رد المحتار: 4/338)

هذا إذا أعطاه الرشوة أولاً ليسوي أمره عند السلطان، وإن طلب منه أن يسوي أمره، ولم يذكر له الرشوة وأعطاه بعد ما يسوي اختلفوا فيه، والصحيح أنه يحل، لأنه يريد مجازاة الإحسان. (شرح المجلة: 6/45)……………… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved