• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیع الحنظۃ بالدقیق

استفتاء

ہمارے یہاں یہ رواج ہے کہ گندم کے بدلےآٹا فروخت کرتے ہیں، تقریباً تمام فقہاء کرام نے اس  کو علی الاطلاق ناجائز لکھا ہے کیونکہ دونوں کی جنس وقدر ایک ہے جس کی وجہ سے مساوات ضروری ہے جبکہ یہاں مساوات ممکن نہیں ، انہی عبارات کے بنیاد پرکچھ عرصہ پہلے اس ناکارہ نے عدم جواز کا جواب بھی لکھا تھا اور ساتھ متبادل صورت بھی لکھی تھی، اب دوبارہ یہی مسئلہ سامنے آیا تو غور کرنےسے ایک  بات ذہن میں آئی جس کے صحیح یا غلط ہونے کے فیصلہ کرنے کے لئے آپ کو تکلیف دینا گوارا کیا ، امید ہے آپ حضرات رہنمائی فرمائیں گے۔

اس مسئلہ پر غور کرنےسے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بنیاد حضرات طرفین اور حضرت امام ابو یوسف رحمہم اللہ کے اختلاف پر ہےطرفین کے نزدیک جو چیز دوررسالت (علی صاحبہا الصلاۃ والسلام) میں کیلی یا وزنی تھی وہ قیامت تک اسی حالت میں رہےگی اگر چہ لوگوں کا طرز وعمل بدل بھی جائے، جبکہ حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک نص کی بنیاد  اس وقت لوگوں کا تعامل تھا لہذا تعامل کے بدلنے سے چیز کی حیثیت بھی بدل جائےگی، آٹا اور گندم دونوں اس زمانے میں کیلی تھے اس لئے حضرات طرفین کے نزدیک اب بھی کیلی ہی شمار ہوں گے اور تبادلہ میں مساوات  فی الکیل ضروری ہے جو کہ گندم کے تخلخل کی وجہ سے ممکن نہیں لہٰذا یہ بیع مطلقاً ممنوع ہے جبکہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک چونکہ لوگوں کے تعامل کی وجہ سے اب گندم وزنی بن چکی ہے اور وزن میں مساوات بالکل آسان ہے اس لئےتساوی  فی الوزن کی شرط پر بیع جائز ہے۔

اس اختلاف میں  عام فقہاء کرام کے طرز سے معلوم ہوتا ہے کہ راجح قول حضرات طرفین کا ہے لیکن پوچھنا یہ ہے کہ

1۔  کیا لوگوں کے تعامل کی وجہ سے امام ابویوسف رحمہ اللہ کے قول پر فتویٰ دیا جاسکتا ہے یانہیں؟

2۔ نیز بعض اوقات یہ توجیہ بھی سامنے آتی ہےکہ جہاں کہیں بھوسہ قیمۃً فروخت ہوتا ہو وہاں اس معاملہ کی تکییف بیع الزیت بالزیتون اور بیع السمسم بالشیرج کی طرح ہوگی اور اگر خالص آٹا ، گیہوں سے نکلنے والے آٹے سے یقیناً زیادہ ہو نیز معاملہ بھی نقدہو تو اس کی گنجائش ہوگی، اس توجیہ کے بناء پر طرفین کے مذہب میں بھی اس معاملہ کی گنجائش پیدا ہوگی نیز فقہاء کرام کے کلام پر بھی بظاہر کوئی اشکال لازم نہیں آئےگا ،  کیا یہ توجیہ فقہی اصول کی روشنی میں درست ہے یانہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مکرم بندہ ۔۔۔۔۔***مجدہ!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گندم کی آٹے کے بدلے خرید وفروخت سے متعلق جو تحریر آپ نے بھیجی ہے، اس سے متعلق چند باتیں پیش خدمت ہیں۔

1۔ قولہ: ’’اس مسئلہ پر غور کرنے سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بنیاد حضرات طرفین اور حضرت امام ابو یوسف رحمہم اللہ کے اختلاف پر ہے۔‘‘

اس بارے میں اتنی بات ذہن میں رہے کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی مشہور روایت حضرات طرفین رحمہم اللہ کے موافق ہی ہے۔ البتہ غیر مشہور روایت کے مطابق امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا حضرات طرفین کے ساتھ اختلاف ہے۔ اور اس غیر مشہور روایت کے مطابق بعض حضرات نے بعض معاملات میں فتویٰ بھی دیا ہے۔ جس کا تذکرہ فتاویٰ شامی میں موجود ہے۔

لہذا ہماری رائے میں بھی موجودہ دور میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی غیر مشہور روایت کے مطابق تساوی فی الوزن کی شرط کے ساتھ فتویٰ دینے کی گنجائش ہے۔  حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ’’مسائل بہشتی زیور‘‘ میں اس روایت کے پیش نظر گندم کی آٹے کے بدلے  خرید وفروخت کو تساوی فی الوزن کی شرط کے ساتھ جائز لکھا ہے۔

2۔  قولہ: ’’آٹا اور گندم دونوں اس زمانے میں کیلی تھے، اس لیے حضرات طرفین رحمہما اللہ کے نزدیک اب بھی کیلی  ہی شمار ہوں گے‘‘۔

اس بارے میں گذارش ہے کہ گندم تو حضرات طرفین رحمہما اللہ کے نزدیک اب بھی کیلی ہی رہے گی۔ لیکن آٹے کے بارے میں حضرات طرفین رحمہما اللہ کی طرف منسوب کی گئی بات درست نہیں۔ کیونکہ آٹا اگرچہ آپ ﷺ کے دور میں کیلی تھا، لیکن آٹے کا کیلی ہونا محض عرف کی وجہ سے تھا، نہ کہ نص کی وجہ سے۔ اور حضرات طرفین رحمہما اللہ کا ذکر کردہ ضابطہ صرف ان اشیاء سے متعلق ہے جن کا کیلی یا وزنی ہونا منصوص ہو اور وہ صرف اشیاء ستّہ ہیں۔ فلیتامل۔

3۔  قولہ: ’’نیز بعض اوقات یہ توجیہ بھی سامنے آتی ہے کہ جہاں کہیں بھوسہ قیمتاً فروخت ہوتا ہو۔۔۔ الخ‘‘

اس بارے میں دو باتیں ہیں۔

(1) گندم اور آٹے کی بیع کے بارے میں حضرات فقہائے کرام کے کلام میں اس توجیہ کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ گندم اور اآٹے کے بارے میں یہ توجیہ اصولاً ہی درست نہ ہو۔ اس پر آپ بھی غور کر لیں۔

(2)  اگر یہ توجیہ، علمی اور اصولی لحاظ سے درست بھی ہو لیکن عملی طور پر اس میں مشکلات ہیں۔ مثلاً

الف: بھوسہ قیمتاً فروخت ہونے کا عرف ہر جگہ نہیں ہے، لہذا ایسی جگہوں میں یہ توجیہ ممکن نہیں۔

ب: گندم میں سے نکلنے والا آٹا بھوسہ نکالنے کے بعد اپنے مقابل آٹے سے کم ہوگا، یا برابر ہو گا، یا زیادہ ہو گا، اس کا علم گندم کے پسوانے اور بھوسے کو گندم سے الگ کرنے کے بعد ہی ہو سکتا ہے، اور ظاہر ہے کہ اتنا تکلف کون کرے گا۔ اور ربوی معاملات میں اندازہ کافی نہیں۔

ج: ہو سکتا ہے کہ گندم خریدنے والا گندم پسوانے کے لیے نہ خریدے بلکہ زمین میں کاشت کرنے کے لیے یا آگے فروخت کرنے کے لیے خریدے۔

یہ باتیں تو آپ کی تحریر سے متعلق ہیں۔

ایک قابل غور نکتہ:

البتہ گندم کی آٹے کے بدلے خرید و فروخت سے متعلق ایک نکتہ ہمارے ایک ساتھی کے ذہن میں بھی ہے، جس پر ابھی تک اگرچہ خود ہمارے دار الافتاء سے کوئی فتویٰ جاری نہیں ہوا۔ لیکن ایک علمی دلچسپی کے طور پر آپ بھی اس پر غور فرما لیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ

حضرات طرفین رحمہما اللہ  کے نزدیک (اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی مشہور روایت کے پیشِ نظر) بھی گندم کی آٹے کے بدلے خرید وفروخت کو علی الاطلاق ناجائز کہنا  موجودہ دور میں،  ہمارے علاقوں کے لحاظ سے درست نہیں۔ کیونکہ گندم کی آٹے کے بدلے خریدوفروخت کو علی الاطلاق ناجائز کہنے کی بنیاد دو چیزوں پر تھی:

i۔ گندم اور آٹے کے درمیان اتحاد فی الجنس موجود ہے، اگرچہ یہ اتحاد فی الجنس من وجہٍ ہے، کتب فقہ میں اس  بنیاد کی تفصیل  کافی وضاحت سے موجود ہے۔

ii۔ گندم اور آٹا دونوں کیلی ہیں، جس کی وجہ سے دونوں میں اتحاد فی القدر بھی ہے۔

فقہ حنفی کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جب دو چیزوں میں اتحاد فی الجنس بھی ہو اور اتحاد فی القدر بھی ہو تو تساوی ضروری ہے۔ اتحاد فی القدر کیل میں ہو تو کیلاً تساوی ضروری ہے، اور وزن میں ہو تو وزناً تساوی ضروری ہے۔

گندم اور آٹا چونکہ دونوں کیلی تھے اس لیے تساوی فی الکیل ضروری تھی، اور وہ ممکن نہ تھی، اس لیے اس بیع کو علی الاطلاق ناجائز کہا گیا۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ گندم اور آٹے میں اتحاد فی الجنس تو اب بھی موجود ہے، البتہ موجودہ دور میں  ہمارے علاقوں کے لحاظ سے گندم اور آٹے میں اتحاد فی القدر موجود نہیں۔ کیونکہ گندم کا کیلی ہونا چونکہ منصوص تھا، اس لیے عرف کے بدلنے کے باوجود گندم تو ہمیشہ  کیلی ہی رہے گی جبکہ  آٹے کا کیلی ہونا نص کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ عرف کی وجہ سے تھا اور غیر منصوص میں حضرات طرفین رحمہما اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی مشہور روایت کے مطابق بھی عرف کا اعتبار ہوتا ہے۔ اور ہمارے عرف میں آٹا وزنی ہے۔  لہذا موجودہ دور میں ہمارے علاقوں کے لحاظ سے گندم اور آٹے کے درمیان اتحاد فی القدر باقی نہ رہا۔ اور ربا الفضل کی دو علتوں میں سے ایک علت مفقود ہو گئی اور ایک علت کا وجود تفاضل کی حرمت کے لیے کافی نہیں۔

اس ساری بات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موجودہ دور میں ہمارے علاقوں کے لحاظ سے گندم اور آٹے کی خرید وفروخت حضرات طرفین رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی مشہور روایت کے مطابق بھی علی الاطلاق جائز ہونی چاہیے۔ فتدبر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved