• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بیع کی ایک قسم ’’سرپرفروخت کرنا‘‘ کا حکم

استفتاء

کاروباری حضرات ایک قسم کی خرید وفروخت کرتے ہیں اسے سر پر فروخت کرنا کہتے ہیں اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ مثلا ایک شخص سو من چنے فروخت کر دیتا ہےلیکن اس کی ابھی کوئی قیمت طے نہیں ہوتی خریدار وہ چنے لے جاتا ہے اب بیچنے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ مہینے بعد یا دو مہینے بعد جب چاہے خریدنے والے سے مطالبہ کرسکتا ہے  اور خریدار کو اختیار ہوتا ہے کہ  چاہے اسے سو من چنے واپس کرے یا اس وقت کے ریٹ کے لحاظ سے سو من کی قیمت ادا کرے  اور عملا عام طور پر قیمت ہی ادا کی جاتی ہے تو کیا یہ صورت جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت ناجائز ہے۔

توجیہ:

مذکورہ صورت کو اگر  بیع پر محمول کریں جیسا کہ اسے مارکیٹ میں سمجھا جاتا ہے تو اس صورت میں  بیع کے وقت مبیع (چنوں)کی قیمت مجہول ہے   جبکہ سودے کے وقت مبیع کی  قیمت طے ہونا ضروری ہے  اس لیے یہ بیع فاسد  ہوگی ۔اور اگر  اس کو قرض پر محمول  کریں تو  مذکورہ صورت میں   پہلے سے ہی عرفا یہ طے ہوتا ہے کہ چنے دینے والے کے تقاضہ کرنے کے وقت لینے والا  چنے دینے کا پابند نہیں بلکہ وہ قیمت بھی ادا کرسکتا ہے نیز عملا قیمت ہی ادا کی جاتی ہے ۔جبکہ قرض میں قرض لینے والے کے ذمے اصل رد المثل(جو چیز قرض پر لی ہے اسی جیسی چیز کا واپس کرنا) ہے یہ الگ بات ہے کہ  باہمی رضامندی سے اس کے متبادل بھی کوئی چیز دے دی جائے جبکہ مذکورہ صورت میں  عرف کی وجہ سے دینے والا پہلے سے ہی مجبور ہوتا ہے   کہ اگر لینے والا قیمت ادا کرے تو وہ انکار نہیں کرسکتا لہذا مذکورہ صورت کو قرض پر بھی محمول نہیں کیا جاسکتا

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved