• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بیع معدوم اور قفیز الطحان کے جواز پر اشکال

استفتاء

(1) بیع معدوم اور قفیز طحان کے عدم جواز کا حکم کیا نصوص صریحہ سے ثابت ہے؟

(2) اگر واقعی نصوص قطعیہ سے اس کا عدم جواز ثابت ہو تو پھر عرف کے اعتبار سے بیع معدوم کی بعض صورتوں (جیسے : آرڈر پر چیز  بنوا کر خریدنا ) یا قفیز طحان کی طرز پر اجرت کو جواز دینا کس حد تک درست ہو گا؟

(3) نیز کیا یہ عرف کا اعتبار نصوص صریحہ کے مقابلے میں نہیں آتا جبکہ اصول یہی ہے کہ عرف کی حجیت نصوص کے تابع ہے نہ کہ مخالف؟

وضاحت مطلوب ہے: آپ کو کوئی خاص مسئلہ در پیش ہے یا اصولی سوال پوچھ رہے ہیں اور اس کی کیا ضرورت پیش آرہی ہے؟

جواب وضاحت: ہمارے جامعہ میں ایک محترم ساتھی ہدایہ ثالث کی تدریس فرما رہے ہیں انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ اس مسئلے پر مدلل جواب پیش کروں چنانچہ میں نے یہ مسئلہ مرتب کر کے آنجناب کی خدمت میں پیش کر دیا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) قفیز طحان اور بیع معدوم کا عدم جواز  نصوص صریحہ  سے ثابت ہے ۔قفیز طحان کے عدمِ جواز  کی نص یہ ہے:

عن ابي سعيد الخدري قال نهى عن عسب الفحل زاد عبيد الله وعن قفيز الطحان  (السنن الکبریٰ للبيهقى، رقم الحدیث: 10854)

اور بیع معدوم کے عدم جواز کی نص یہ ہے:

“عن حكيم بن حزام قال نهاني رسول الله ﷺأن ابيع ما ليس عندي”(الجامع للترمذی، رقم الحدیث : 1195)

اس حدیث میں اگرچہ اصلا غیر مملوک کی بیع سے روکنا مقصود ہے تاہم یہ حدیث دلالۃ النص کے اعتبار سے بیع معدوم کی نہی کو بھی شامل ہے۔ یعنی جب غیر مملوک کی بیع ممنوع ہے تو معدوم کی بیع بدرجہ اولی ممنوع ہوگی۔

(3،2)  عرف عام کی وجہ سے کسی نص کو مخصوص کیا جا سکتا ہے بالکل متروک نہیں کیا جا سکتا لہٰذا عرف عام کی وجہ سے بیع معدوم یا قفیز طحان کی بعض صورتوں کو جائز کہنا نص کی تخصیص ہے نص کا بالکلیہ ترک کرنا نہیں ہے۔ عرف کا اعتبار نصوص صریحہ کے مقابلے میں تب آتا جب عرف کی وجہ سے نصوص کو بالکلیہ ترک کیا جاتا وإذ ليس فليس۔

العنایہ شرح الہدایہ بہامش فتح القدير (7/ 114)میں ہے:

(وإن استصنع شيئا من ذلك بغير أجل جاز استحسانا) للإجماع الثابت بالتعامل.وفي القياس لا يجوز لأنه ‌بيع ‌المعدوم

قال (وإن استصنع شيئا من ذلك بغير ذكر الأجل جاز إلخ) الاستصناع هو أن يجيء إنسان إلى صانع فيقول اصنع لي شيئا صورته كذا وقدره كذا بكذا درهما ويسلم إليه جميع الدراهم أو بعضها أو لا يسلم، وهو لا يخلو إما أن يكون فيما فيه تعامل، وإليه أشار بقوله شيئا من ذلك: أي مما تقدم من طست وقمقم وخفين أو لا. والثاني لا يجوز قياسا واستحسانا كما سيجيء والأول يجوز استحسانا والقياس يقتضي عدم جوازه؛ لأنه ‌بيع ‌المعدوم، وقد نهى صلى الله عليه وسلم عن بيع ما ليس عند الإنسان ورخص في السلم، وهذا ليس بسلم؛ لأنه لم يضرب له أجل، إليه أشار قوله: بغير أجل.

وجه الاستحسان الإجماع الثابت بالتعامل، فإن الناس في سائر الأعصار تعارفوا الاستصناع فيما فيه تعامل من غير نكير، والقياس يترك بمثله كدخول الحمام……الخ

مجموعہ رسائل ابن عابدین(2/629) میں ہے:

إذا خالف العرف الدليل الشرعي فإن خالفه من كل وجه بأن لزم منه ترك النص فلا شك في رده وإن لم يخالفه من كل وجه بأن ورد الدليل عاما والعرف خالفه في بعض أفراده أو كان الدليل قياسا فإن العرف معتبر إن كان عاما فإن العرف العام يصلح مخصصا كما مر عن التحرير ويترك به القياس كما صرحوا به في مسئلة الاستصناع و دخول الحمام والشرب من السقا.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved