• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بہشتی زیور کے اکھیڑے ہوئے بالوں کی ناپاکی کے مسئلہ کے بارے

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ

1۔ بہشتی زیور (195) میں لکھا ہے کہ داڑھی کے بال اگر اکھیڑے جائیں ان کے سرے ناپاک ہوتے ہیں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ وضو کے بعد جب داڑھی پر کنگھی پھیریں تو کچھ بال ٹوٹ جاتے ہیں اور ان کے سرے سفید ہوتے ہیں تو کیا اب کنگھا ناپاک ہو گیا اور داڑھی بھی ناپاک ہو گئی یا نہیں؟

داڑھی کے ٹوٹے ہوئے پھینکے کا حکم

2۔ کیا داڑھی کے ٹوٹے بال کہیں بھی پھینکے جا سکتے ہیں یا جیب میں رکھے جا سکتے ہیں؟ مہربانی فرما کر تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ اکھڑے ہوئے بالوں کے سروں پر اگرچہ دسومت اور چکناہٹ ہوتی ہے مگر  یہ دسومت بالعموم قلیل ہوتی ہے جبکہ کسی چیز کو نجس کرنے کے لیے  ضروری ہے کہ دسومت کی مقدار ایک ناخن کے پھیلاؤ کے برابر ہو جائے۔ لہذا مذکورہ صورت میں اکھڑے ہوئے بالوں کے لگنے کے باوجود کنگھا وغیرہ پاک رہیں گے۔

بہشتی زیور کا مسئلہ اس صورت پر محمول ہو گا جب اس کی مقدار ایک ناخن کے پھیلاؤ کے برابر ہو۔

فتاویٰ شامی (1/400-401) میں ہے:

وشعر الإنسان غير المنتوف …. ويفسد الماء بوقوع قدر الظفر من جلده لا ما  بالظفر. قال الشامي رحمه الله تحت قوله: قوله: (غير المنتوف) أما المنتوف فنجس. بحر. والمراد رؤوسه التي فيها الدسومة.

أقول: وعليه فما يبقى بين أسنان المشط ينجس الماء القليل إذا بل فيه وقت التسريح، لكن يؤخذ من المسألة الآتية كما قال ط إن ما خرج من الجلد مع الشعر إن لم يبلغ مقدار الظفر لا يفسد الماء. تأمل.

قال الرافعي رحمه الله تحت قوله (وظاهره أنه لو كان فيه دسومة إلخ) وقال السندي نقلاً عن الرحمتي: ولم يحترز عن الرطوبة في الظفر لأنها إذا لم تبلغ حد السيلان فليس بنجس على الأصح، ويظهر أنه ما أفسد الماء من الشعر المنتوف ونحوه لا بد أن يكون ما فيه من النجاسة يبلغ حد السيلان، ولذا قالوا إن الذي مع الشعر المنتوف إن لم يبلغ قدر الظفر لا يفسد الماء. تأمل

2۔ داڑھی کے ٹوٹے ہوئے بالوں کو دفن کر دیا جائے یا کسی ایسی محفوظ جگہ میں ڈال دیے جائیں جہاں پر گندگی نہ ہو۔

فتاویٰ شامی (9/668) میں ہے:

فإذا قلم أظفاره أو جز شعره ينبغي أن يدفنه فإن رمى به فلا بأس، وإن ألقاه في الكنيف أو في المغتسل كره لأنه يورث داء، خانية. ويدفن أربعة: الظفر، والشعر، خرقة الحيض، والدم.

مسائل بہشتی زیور (2/449) میں ہے:

’’کٹے ہوئے ناخن اور بال دفن کر دینا چاہیے اگر دفن نہ کرے تو کسی محفوظ جگہ ڈال دے یہ بھی جائز ہے مگر نجس گندی جگہ نہ ڈالے اس سے بیمار ہو جانے کا اندیشہ ہے۔‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved