- فتوی نمبر: 32-23
- تاریخ: 24 مارچ 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > ہبہ و ہدیہ
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر شوہر نے اپنی زندگی میں ہی اپنی تمام جائیداد اپنے تمام ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم کر دی ہو، اور اس تقسیم میں کچھ پراپرٹی اپنی بیوی کے نام بھی کر دی ہو تاکہ ان کی وفات کے بعد ان کی بیوی کو کوئی محتاجی نہ ہو اور پراپرٹی سے ان کو مناسب کرایہ آتا رہے تاکہ ان کے معاملات زندگی با آسانی چلتے رہیں، لیکن شوہر کی وفات کے بعد ایک بیٹے کی نظر ان کی پراپرٹی پر تھی اور وفات کے تین چار سال بعد اس بیٹے نے اپنی والدہ کو بلیک میل کر کے یا زبردستی یا پھر دباؤ ڈال کر کسی بھی طریقے سے اپنے نام کروا لی، اور باقی بہن بھائیوں کا حق مارا، جب باقی بہن بھائیوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے والدہ سے اس معاملے کے بارے میں پوچھا کیونکہ صرف ایک بھائی نے باقی بہن بھائیوں سے چھپ کر پراپرٹی اپنے نام کروائی تھی تو والدہ نے کہا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے کیونکہ اس نے مجھے بلیک میل کیا، پھر والدہ نے اس بیٹے سمیت اولاد کے نام ہبہ کروایا، پچھلے پانچ سال سے عدالت میں بھی کیس چل رہا ہے، جب سے کیس چل رہا ہے وہ بھائی والدہ کو کرایہ بھی پورا نہیں دے رہے اور ان کو پیسوں کا محتاج بنایا ہوا ہے، مفتیان کرام رہنمائی فرمائیں کہ :
1۔اس بھائی کا اس طریقے سے پراپرٹی اپنے نام کروانا جائز ہے؟
2۔ اگر جائز نہیں تو اب اس کا کیا حل ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔حضورﷺ کا ارشاد ہے:
ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى.
ترجمہ : خبردار کسی آدمی کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال اور جائز نہیں ہے ۔(مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب البیوع، باب الغصب والعاريہ، الفصل الثانی، 1/261، ط: رحمانيہ)
لہذا مذکورہ صورت میں اگر واقعتا والدہ سے دکانوں کا ہبہ انہیں بلیک میل کر کے یا زبردستی کر کے یا دباؤ ڈال کر کروایا گیا ہے تو موہوب لہ کا یہ عمل شرعا حلال اور جائز نہیں۔
2۔ اس کا حل یہ ہے کہ موہوب لہ یہ دکانیں اپنی والدہ کو واپس کرے پھر والدہ اپنی دلی خوشی سے یہ دکانیں جس کو دینا چاہیں دیں بشرطیکہ جس کو دی جائیں اس کو دینے کی کوئی خاص وجہ دینی یا دنیوی ہو اور دیگر ورثاء کو محروم کرنا مقصود نہ ہو، ورنہ وہ یا تو زندگی میں یہ دکانیں کسی کو نہ دیں یا کم از کم سب اولاد کو ان کے وراثتی حصوں کے بقدر دیں۔
نوٹ: مذکورہ بیان سے واہبہ یا موہوب لہ یا کسی بھی فریق کو اختلاف ہو تو وہ تحریری طور پر اپنا اختلافی بیان دارالافتاء میں جمع کرا سکتا ہے اور اس کے پیش نظر جواب پر نظر ثانی بھی ہو سکتی ہے۔
مشکوٰۃ المصابیح (1/261) میں ہے:
وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» و في رواية ..قال:فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم.
ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیرؓ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟انہوں نے کہا : نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔
بدائع الصنائع (200/6)میں ہے:
وأما النوع الذي يحتمل الفسخ فالبيع والشراء والهبة والإجارة ونحوها فالإكراه يوجب فساد هذه التصرفات عند أصحابنا الثلاثة رضي الله عنهم وعند زفررحمه الله يوجب توقفها على الإجازة كبيع الفضولي، وعند الشافعي رحمه الله يوجب بطلانها أصلا ………(ولنا) ظواهر نصوص البيع عاما مطلقا من غير تخصيص وتقييد، ولأن ركن البيع وهو المبادلة صدر مطلقا من أهل البيع في محل وهو مال مملوك البائع فيفيد الملك عند التسليم كما في سائر البياعات الفاسدة، ولا فرق سوى أن المفسد هناك لمكان الجهالة أو الربا أو غير ذلك، وهنا الفاسد لعدم الرضا طبعا فكان الرضا طبعا شرط الصحة لا شرط الحكم، وانعدام شرط الصحة لا يوجب انعدام الحكم كما في سائر البياعات الفاسدة إلا أن سائر البياعات لا تلحقها الإجازة؛ لأن فسادها لحق الشرع من حرمة الربا ونحو ذلك فلا يزول برضا العبد، وهنا الفساد لحق العبد وهو عدم رضاه فيزول بإجازته ورضاه…….. (وأما) الإكراه على الهبة فيوجب فسادها كالإكراه على البيع حتى أنه لو وهب مكرها وسلم مكرها ثبت الملك كما في البيع إلا أنهما يفترقان من وجه وهو أن في باب البيع إذا باع مكرها وسلم طائعا يجوز البيع وفي باب الهبة مكرها لا يجوز سواء سلم مكرها أو طائعا، وقد بينا الفرق بينهما فيما تقدم.
شرح المجلہ (3/344) میں ہے:
تنعقد الهبة بالايجاب والقبول وتتم بالقبض ……….. واعلم أن المراد بالقبض الذي تتم به الهبة هو القبض الكامل،وهو في المنقول ما يناسبه وفي العقار ما يناسبه.
فتاوی عالمگیری (4/391)میں ہے:
ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.
رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء ويكون آثما فيما صنع،ولو كان الولد مشتغلا بالعلم لا بالكسب فلا بأس بأن يفضله على غيره، كذا في الملتقط
مسائل بہشتی زیور (ص 336) میں ہے:
مسئلہ: جو چیز ہو اپنی سب اولاد کو برابر برابر دینا چاہیے۔ لڑکا لڑکی سب کو برابر دے۔ اگر کبھی کسی کو کسی وجہ سے مثلاً اس کی دینداری، خدمت گزاری، دینی خدمات میں مشغولیت اور تنگدستی وغیرہ سے کچھ زیادہ دے دیا تو بھی خیر کچھ حرج نہیں ہے لیکن جسے کم دیا اس کو نقصان دینا مقصود نہ ہو، نہیں تو کم دینا درست نہیں ہے۔ البتہ اگر دوسروں کو نقصان دینے کی غرض سے ہی کسی کو زیادہ دیا یا سارا دے دیاتو وہ ہبہ نافذ ہوجائے گا لیکن باپ گناہ گار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved