• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے عورتوں کا مسجد آنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

1۔ کیا عورتیں مسجد میں آکر جماعت کے ساتھ نماز ادا کر سکتی ہیں؟جبکہ پردے کا پورا انتظام کیا گیا ہو یعنی مسجد کے ساتھ ان کے لیے علیحدہ جگہ بنائی گئی ہو۔ اور صرف جمعہ اور عیدین میں آکر نماز پڑھ سکتی ہیں یا عام نمازوں میں بھی اجازت ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

 

1۔ موجودہ دور میں عورتوں کا مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے آنا جائز نہیں۔ خواہ وہ نماز عام نماز ہو یا جمعہ و عیدین کی نماز ہو۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاً تو خود آپ ﷺ کے دور میں بھی عورتوں کو نماز کے لیے مسجد میں آنے کی صرف اجازت تھی۔ عورتوں کے لیے مسجد میں نماز کے لیے آنا کوئی فرض یا واجب نہ تھا۔ اور اس اجازت کی بھی مندرجہ ذیل وجوہات تھیں:

i۔ آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا دور خیر القرون کا دور تھا، اور فتنہ وفساد آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی برکت سے مغلوب تھا، دلوں میں پاکیزگی تھی، اور اگر کوئی منافق قسم کا آدمی کوئی شرارت کرنے کا سوچتا بھی تھا تو اسے یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں وحی کے ذریعے میری شرارت کی اطلاع آپ ﷺ کو نہ کر دی جائے۔

ii۔ آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا دور احکام کے نازل ہونے کا دور تھا، اور جس طرح مردوں کو احکام سیکھنے کی ضرورت تھی اسی طرح عورتوں کو بھی احکام سیکھنے کی ضرورت تھی۔

iii۔ مردوں کو آپ علیہ الصلاۃ و السلام کے پیچھے نماز پڑھنے کا شوق تھا اسی طرح یہ جذبہ عورتوں میں بھی کم نہ تھا۔

ان وجوہات کے پیش نظر ایک طرف تو عورتوں کو مسجد میں نمازوں کے لیے آنے کی اجازت دی گئی  اور مردوں کو کہا گیا کہ وہ عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے نہ روکیں۔ لیکن دوسری طرف عورتوں کو شیطان کا جال بھی کہا گیا ہے اور عورتوں کے فتنے سے بچنے کی بہت تاکید بھی کی گئی ہے اور یہ بھی بتلایا گیا کہ بنی اسرائیل میں پہلا فتنہ عورتوں کی وجہ سے برپا ہوا۔

اس لیے خود آپ ﷺ نے اس اجازت کے باوجود عورتوں کے لیے افضل اور بہتر اس کو قرار دیا کہ وہ میرے پیچھے نماز پڑھنے کے بجائے اپنے گھروں میں رہ کر نماز پڑھیں۔ چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے:

عن أم حميد امرأة أبي حميد الساعدي أنها جاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إني أحب الصلاة معك فقال لقدعلمت أنك تحبين الصلاة معي وصلاتك في بيتك خيرمن صلاتك في حجرتك وصلاتك في حجرتك خير من صلاتك في دارك وصلاتك في دارك خير من صلاتك  في مسجد قومك، وصلاتك في مسجد قومک خير من صلاتك في مسجدي .قال فأمرت فبني لهامسجد في أقصى شيء من بيتها وأظله وكانت تصلي فيه حتى لقيت الله عزوجل.(مسند احمد ،رقم الحدیث:27158)

ترجمہ: ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے آپ کے ساتھ (یعنی آپ کے پیچھے مسجد نبوی میں ) نماز پڑھنا محبوب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا  یہ تو مجھے معلوم ہے کہ تمہیں میرے ساتھ نماز پڑھنا محبوب ہے ، لیکن (عورتوں کے اعتبار سے ضابطہ یہ ہے کہ) تمہارے کمرے (بلکہ کوٹھری ) میں تمہاری نماز بہتر ہے تمہاری اس نماز سے جو تمہارے حجرے (یعنی  اس صحن) میں ہو (جس کے گرد چار دیواری ہو) اور تمہارے حجرے میں تمہاری نماز بہتر ہے تمہارے کھلے صحن میں تمہاری نماز سے اورتمہارے کھلے صحن میں تمہاری نماز بہتر ہے تمہارے محلہ کی مسجد میں تمہاری نماز سے اور تمہارے محلے کی مسجد میں نماز بہتر ہے (یہاں آکر) میری مسجد میں تمہاری نماز سے۔

اس پر ام حمید رضی اللہ عنہا نے حکم دیا تو ان کے لیے ان کے گھر کے سب سے اندر اور سب سے تاریک حصہ میں نماز کی جگہ بنائی گئی اور وہ اپنی وفات تک وہیں نماز پڑھتی رہیں۔

اس حدیث میں اور حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا کے عمل کے پیش نظر ایک مسلمان عورت کی یہ شان ہی نہیں کہ عورت کے لیے جس جگہ (یعنی گھر کا بھی اندرونی حصہ) نماز پڑھنے کو خود نبی کریم ﷺ افضل و بہتر فرما رہے ہوں عورت اس جگہ کو چھوڑ کر نماز

پڑھنے کے لیے مسجد کا رُخ کرے۔ جبکہ مسجد میں نماز پڑھنے کا عورتوں کو نہ تو حکم ہے اور نہ اس میں کوئی ثواب ہے۔

نیز یہ اجازت بھی صرف اس وقت تک تھی جب تک کہ فتنے وفساد کا شیوع اور عموم نہ ہوا تھا۔ چنانچہ جب آپ ﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے اور دین اسلام مکمل  ہو گیا، اور عورتوں نے بھی اپنے متعلقہ احکام کو سیکھ لیا، اور حالات بھی ایسے نہ رہے جیسے آپ علیہ الصلاة و السلام کے دور میں تھے، اور فتنے کا اندیشہ ہونے لگا تو حضرت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (جوکہ آپ علیہ الصلاة والسلام کے مزاج شناس تھے، اور آپ علیہ الصلاة و السلام کے ہر قول و فعل پر عمل کرنا اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز سمجھتے تھے، اور ہر وقت اجر و ثواب کے کاموں کی تلاش میں رہتے تھے۔ انہوں) نے اپنے زمانے کی عورتوں کے حالات کے پیشِ نظر عورتوں کے مسجدوں میں  جانے کو نا پسند کیا۔ چنانچہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

عن عائشة رضي الله عنها قالت: لوأن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى ماأحدث النساء بعده لمنعهن المسجد كمامنعت نساء بني اسرائيل. (مسلم1/ 183)

ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اگر رسول اللہ ﷺ وہ کچھ (بے احتیاطیاں بے پردگیاں اور فتنے) دیکھ لیتے جو آپ کے بعد عورتوں نے ایجاد کرلی ہیں تو ان کو مسجد میں حاضری سے منع فرمادیتے جیساکہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو (مسجد میں حاضری سے ) منع کیا گیا ۔

اسی طرح حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جو کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے داماد اور خود آنجناب ﷺ کے ہم زلف تھے، ان کی شادی جب حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی تو حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا نماز پڑھنے  کے لیے مسجد میں تشریف لے جاتی تھیں اور زمانے کے فساد کی وجہ سے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ  کو یہ بات پسند نہ تھی۔ چنانچہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو مسجد میں جانے سے روکنے کے لیے یہ حیلہ اختیار کیا کہ رات کو  راستے میں چھپ کر بیٹھ گئے، جب عشاء کی نماز کے لیے حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا کا ادھر سے گذر ہوا تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کو چھیڑا، اور بیوی ہونے کی وجہ سے یہ ان کے لیے جائز تھا۔ اگلے دن حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا نے مسجد جانا چھوڑ دیا، اور فرمایا کہ زمانہ پہلے جیسا نہیں رہا۔

چنانچہ “الإصابة في تمييز الصحابة” میں ہے:

وذكر أبو عمر في التمهيد أن عمر لما خطبها شرطت عليه ألا يضربها ولا يمنعها من الحق ولا من الصلاة في المسجد النبوي ثم شرطت ذلك على الزبير فتحيل عليها أن كمن لها لما خرجت إلى صلاة العشاء فلما مرت به ضرب على عجيزتها فلما رجعت قالت إنا لله فسد الناس فلم تخرج بعد. الإصابة في تمييز الصحابة – (ج 8 / ص 12)

حضرت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ ارشاد اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا اپنی بیوی کے مسجد جانے کو نا پسند سمجھنا اپنے دور کی ان عورتوں کے حالات کو مد نظر رکھتےہوئے تھا جن کے ایمان، تقوی، پردہ اور عمل کی حالت ہمارے زمانے کی عورتوں کے ایمان، تقویٰ، پردہ اور عمل کی حالت سے ہزاروں درجے بہتر تھی ۔ اس لیے ہمارے دور میں عورتوں کا نماز جمعہ، نماز عید یا دیگر نمازوں کے لیے مسجد میں آنا  جائز نہیں ۔

چنانچہ اسی بناء پر فقہائے کرام جو دین کی گہری سمجھ رکھنے والے ہیں، انہوں نے جمعہ، عید اور دیگر نمازوں میں عورتوں کے آنے کو نا جائز اور مکروہ کہا۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

 (ويكره حضور هن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ(مطلقا) ولو عجوزا ليلاً(على المذهب) المفتي به لفساد الزمان.

قال العلامة الشامي تحت قوله (ولو عجوزا ليلاً) بيان للإطلاق أي شابة أو عجوزاً نهاراً أو ليلاً. (درالمختار، ص: 367 ، ج:2 ) 

ترجمہ: زمانے کے بگاڑ کی وجہ سےعورتوں کا جماعت میں شریک ہونا مکروہ ہے، اگرچہ جماعت جمعہ کی ہو یا عید کی ہو ۔۔۔۔ اور عورت چاہے بوڑھی ہو

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved