• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا بالغ اولاد اپنے والدین کے نکاح میں گواہ بن سکتی ہے؟

استفتاء

ہم لوگ آپس میں ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک مسئلہ پر بحث چل پڑی کہ کیا انسان کی بالغ اولاد اس کے نکاح کی گواہ بن سکتی ہے؟ ایک دوست جس کا نام خادم ہے وہ کہتا ہے کہ نہیں بن سکتی جبکہ دوسرا دوست جس کا نام محمود ہے وہ کہتا ہے کہ بن سکتی ہے، اب کس کا قول درست ہے، براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں محمود کا قول درست ہے لہٰذا عاقل، بالغ اولاد والدین کے نکاح میں گواہ بن سکتی ہے، البتہ جہاں اعلانیہ نکاح نہ ہو  بلکہ صرف  چند گواہوں کی موجودگی میں نکاح کیا جارہا ہو تو وہاں اولاد کو گواہ بنانا بہتر نہیں، گو اس صورت میں بھی نکاح صحیح ہوجائے گا لیکن اگر اختلاف ہوجائے تو عدالت میں نکاح ثابت کرنے کے لئے والدین کے حق میں اولاد کی گواہی معتبر نہ ہوگی۔

درمختارمع ردالمحتار (98/4)میں ہے:(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب. بحر (مسلمين لنكاح مسلمة ولو فاسقين أو محدودين في قذف أو اعميين أو إبنى الزوجين أو إبنى أحدهما وإن لم يثبت النكاح بهما) بالابنينوفي الشامية تحت قوله: (وإن لم يثبت النكاح بهما) أى: بالابنين: أى: بشهادتهما، فقوله”بالابنين” بدل من الضمير المجرور، وفي نسخة لهما: أى للزوجين وقد أشار إلى ما قدمناه من الفرق بين حكم الانعقاد، وحكم الإظهار: أى ينعقد النكاح بشهادتهما، وإن لم يثبت بها عند التجاحد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved