• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بالغہ لڑکی کو نکاح پرمجبورنہیں کرسکتے

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حضرت مفتی صاحب ایک مسئلہ میں دینی رہنمائی کی ضرورت ہے، ہم اس مسئلے میں بہت پریشان ہیں اور آپس میں جھگڑے کی صورت بن رہی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ محمد رقیب خان نے اپنی بیٹی مریم بی بی کانکاح ابراہیم سے عرصہ پانچ برس پہلے کردیا اور رخصتی بھی ہوگی، میاں بیوی آپس میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے کہ اللہ کے فیصلے سے ابراہیم کی ریڈ کی ہڈی میں کینسر ہوگیا اور انتقال کرگئے ،لڑکی مریم نے اپنے سسرال میں عدت (چار ماہ دس دن )مکمل کرنے کے بعد اپنے والدین کے گھر آگئی اور لڑکی کا سامان جہیزاور حق مہر کا سونا وغیرہ اپنے سسرال ہی میں ہے ۔

اب لڑکے کے والد اور خاندان کے دیگر افراد کا مشورہ اور اصرار ہے کہ لڑکی( مریم بی بی)کانکاح ابراہیم مرحوم کے بھائی سے یا اپنے ہی گھر میں کسی اور قریبی رشتہ دار سے کردیاجائے ،تاکہ ہماری بہو ہمارے ہی گھر میں آباد رہے ،ہم اس کے والدین کی جگہ بھی ہیں اور سرپرست بھی ہیں، لیکن مریم بی بی ان کے خاندان میں کسی سے نکاح پر آمادہ نہیں ہے، باوجود اصرار کے پھر بھی اس کی قطعارضامندی  ان کے خاندان میں نہیں ہے۔

  1. کیا لڑکی کے والدین زبردستی یاجرگہ کے فیصلہ کے تابع ہوکر اپنی بیٹی کانکا ح اس کی صراحتا اجازت کے بغیر وہاں کر سکتے ہیں؟
  2. لڑکی کا سامان جہیز اور حق مہر کا سونا وغیرہ کس کا ہے؟اس پر کس کا حق ہے؟ اور لڑکے کی ملکیت میں سے اگر نہ ہو تو کچھ لڑکی کا حصہ ہے؟ برائے مہربانی ہماری اس مسئلے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق رہنمائی فرمائیں، تاکہ دونوں فریق آپس میں محبت سے رہے اور اتفاق قائم ہوجائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  1. مذکورہ صورت میں لڑکی کی صریح رضامندی کے بغیر اس کے سابقہ سسرال والوں میں سے کسی مرد کے ساتھ اس کا نکاح کرنا جائز نہیں، جو لوگ اس میں زبردستی کریں گے وہ بھی گنہگار ہوں گے۔

2. لڑکی کا جہیز اور حق مہر خود لڑکی کا حق ہے اور اس کے علاوہ لڑکے کی ملکیت میں جو کچھ تھا اس میں بھی اگر لڑکے کی اولاد نہیں تھی تو ایک چوتھائی(4/1) ورنہ آٹھواں(8/1) حصہ بیوی کا بنے گا

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved