- فتوی نمبر: 21-376
- تاریخ: 20 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
کیا سیاہ خضاب بالوں کو لگانا جائز ہے؟مجاہد تو سیاہ خضاب لگا سکتا ہے۔ جو کام مجاہد کر سکتا ہے وہ عام انسان بھی کر سکتا ہے۔ اگر سیاہ خضاب حرام ہے تو مجاہد کے لئےحرام چیز کیسے حلال ہے؟ہمارا دین اسلام بھی ہمیں زیب و زینت اختیار کرنے کا کہتا ہے تو سیاہ خضاب سے انسان خوبصورت ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی عالم دین سیاہ خضاب لگا کر اور خوبصورت ہو کر دین کی بات کرے گا تو لوگ زیادہ اس کی جانب متوجہ ہوں گے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
بالوں کو سیاہ خضاب لگانا جائز نہیں ہے۔
مجاہد کے لئے سیاہ خضاب لگانا اس وقت جائز ہے جب جہاد میں دشمن سے آمنا سامنا ہو تا کہ دشمن پر رعب پڑےکہ اس کا سامنا کسی جوان سےہے نہ کہ بوڑھے سے۔ الغرض مجاہد کو سیاہ خضاب کی اجازت زیب و زینت کی غرض سے نہیں ہے بلکہ کافروں کے دل میں رعب پیدا کرنے کے لئے ہے۔
خوبصورتی کی غرض سے خضاب لگانا منع نہیں ہے تا ہم سیاہ خضاب ممنوع ہے۔ سیاہ خضاب کے علاوہ لال رنگ یا براؤن رنگ یا اور کسی اورالگ رنگ کا خضاب لگانا جائز ہے۔
صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینہ، باب استحباب خضاب الشیب بصفرۃ او حمرۃ وتحریمہ بالسواد، حدیث نمبر 5109 میں ہے:
"عن جابر بن عبد الله ، قال: اتي بابي قحافة يوم فتح مكة وراسه ولحيته كالثغامة بياضا، فقال رسول الله ﷺ: ” غيروا هذا بشيء واجتنبوا السواد "
ترجمہ: سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن حضرت ابوقحافہ ؓ کو آپ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا، ان کا سر اور ان کی داڑھی ثغامہ (سفید گھاس) کی طرح سفید تھی آپ ﷺنے حکم دیا کہ اس سفیدی کو کسی چیز سے بدل دو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو
سنن ابو داؤد، کتاب الترجل، باب ما جاء فی خضاب السواد، حدیث نمبر 4212 میں ہے:
"عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله ﷺ:” يكون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد كحواصل الحمام لا يريحون رائحة الجنة”
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: آخر زمانے میں کچھ لوگ کبوتر کے سینے کی طرح سیاہ خضاب لگائیں گے وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائیں گے
رد المحتار علی الدر المختار (طبع: مکتبہ رشیدیہ) جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 522 پر ہے:
"( اختضب لأجل التزين للنساء والجواري جاز ) في الأصح ويكره بالسواد وقيل لا
قال ابن عابدين : ( قوله جاز في الأصح ) وهو مروي عن أبي يوسف فقد قال : يعجبني أن تتزين لي امرأتي كما يعجبها أن أتزين لها والأصح أنه لا بأس به في الحرب وغيره واختلفت الرواية في أن النبي ﷺ فعله في عمره والأصح لا وفصل في المحيط بين الخضاب بالسواد قال عامة المشايخ : إنه مكروه وبعضهم جوزه مروي عن أبي يوسف ، أما بالحمرة فهو سنة الرجال وسيما المسلمين ـ منح ملخصا وفي شرح المشارق للأكمل والمختار أنه ﷺ خضب في وقت ، وتركه في معظم الأوقات ، ومذهبنا أن الصبغ بالحناء والوسمة حسن كما في الخانية قال النووي : ومذهبنا استحباب خضاب الشيب للرجل والمرأة بصفرة أو حمرة وتحريم خضابه بالسواد على الأصح لقوله عليه الصلاة والسلام { غيروا هذا الشيب واجتنبوا السواد } قال الحموي وهذا في حق غير الغزاة ولا يحرم في حقهما للإرهاب ولعله محمل من فعل ذلك من الصحابة "
فتاوی عالمگیریہ، کتاب الکراھیہ، باب العشرون فی الزینۃ (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر9 صفحہ نمبر 176) میں ہے:
"وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ وبعضهم جوز ذلك من غير كراهة وروي عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه قال كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها كذا في الذخيرة وعن الإمام أن الخضاب حسن لكن بالحناء والكتم والوسمة وأراد به اللحية وشعر الرأس والخضاب في غير حال الحرب لا بأس به في الأصح كذا في الوجيز للكردري”
فتاوی رحیمیہ(طبع: دار الاشاعت، كراچی) جلد 4صفحہ نمبر 33 پر ہے:
(سوال ۲۳) ایک شخص نے اپنے سفید بالوں میں سیاہ خضاب لگا یا ہے ، کیا یہ خصاب لگانا درست ہے ؟ ۔۔۔۔ اگر خضاب لگانا ہو تو کون سا خضاب لگانا جائز ہے ؟ بینوا توجروا۔
(الجواب)سیاہ خضاب لگانا سخت گناہ ہے ، احادیث میں اس پر سخت وعید آئی ہے ۔۔۔۔لہذا خالص سیاہ خضاب نہ لگایا جائے ۔۔۔سرخ یا مہندی کا خضاب لگایا جائے۔۔۔الخ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved