- فتوی نمبر: 9-360
- تاریخ: 12 مارچ 2017
استفتاء
محترم مفتی صاحب! گذارش ہے کہ ایک شہر سے دوسرے شہر سامان بھیجنے کے لیے ٹرک اڈے پر بک کروایا جاتا ہے۔ اڈے پرجب مال بک کروایا جاتا ہے تو اڈے والے ایک رسید دیتے ہیں جسے بلٹی کہتے ہیں۔ دوسرے شرہ میں وہ بلٹی دکھا کر اپنا مال وصول کیا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات اڈے والے مال بک کرتے وقت کرایہ وصول کر لیتے ہیں ورنہ اکثر اوقات اڈے
والوں کو کرایہ دوسرے شہر میں پہونچنے کےبعد ادا کیا جاتا ہے۔
اگر کوئی آسمانی آفت نہ ہو تو مال دینا اڈے کی ذمہ داری ہوتی ہے لہذا گم ہو جانے کی صورت میں اڈے والوں کو تاوان دینا پڑتا ہے۔ (یہ علیحدہ بات ہے کہ اڈے والے منت سماجت کر کے معاف کروالیں یا تاجروں کی پنچائت میں مسلسل اصرار کر کے کم و بیش تاوان پر راضی کروا لیں)۔
اڈے والے سال، ڈیڑھ سال بعد اپنا گودام صاف کرتے ہیں۔ صفائی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ گودام میں موجود ہر کارٹن و بنڈل کو چیک کیا جاتا ہے کہ یہ مال کب بک ہوا تھا۔ اور ہمارے پاس گودام میں کتنے عرصے سے پڑا ہوا ہے۔ (گودام بہت بڑے ہوتے ہیں اس لیے روزانہ صفائی مشکل ہوتی ہے) صفائی کے دوران بہت سے کارٹن و بنڈل ایسے نکلتے ہیں کہ جن کو طویل عرصہ گذر چکا ہے۔ ان کارٹنوں پر طویل عرصہ گذرنے کی ممکنہ وجوہات متعدد ہوتی ہیں مثلاً
1۔ جس نے مال بک کروایا تھا وہ اگلے بندے کو بلٹی دینا بھول گیا اور اگلےشخص کو پتا ہی نہیں لگا (نوٹ: عام طور سے بلٹی پر صرف دوسرے شخص کا نام لکھا ہوتا ہے پتہ یا فون نمبر نہیں ہوتا)۔
2۔ دوسرے شخص کو بلٹی موصول ہو گئی تھی لیکن اس سے گم ہو گئی اور کاروبار وسیع ہوتا ہے مگر منضبط نہیں ہوتا تو وہ بھول گیا۔
3۔ مال کم قیمت کا ہے اور دوسرے شخص کو سفر وغیرہ کی وجہ سے تاخیر ہو گئی ہے۔ لہذا اگر چھڑائے تو کرایہ زیادہ پڑے گا۔ (کیونکہ ہر بلٹی پر درج ہوتا ہے کہ 15 روز کے بعد یومیہ اتنے روپے گودام کرایہ وصول کیا جائے گا)۔
4۔ اس کارٹن کے اوپر دیگر اموال لگ جانے کی وجہ سے یہ چھوٹا کارٹن دب گیا تھا اور ملازموں نے ترتیب میں غلطی کر دی تھی۔ (اڈے کا مالک اپنے تجربہ کی بنیاد پر گودام میں مال رکھنے کی ترتیب بناتا ہے ملازم اگر لا پرواہی کریں اور ترتیب کی خلاف ورزی کریں پھر یاد بھی نہ رکھیں کہ نیچے چھوٹا کارٹن موجود ہے تو مالک از خود نہیں ڈھونڈ سکتا)۔
اڈے والے سے مال گم ہو جانے کی یہ وہ صورت ہے جس کا تاوان اڈے والے پر پڑتا ہے۔ پھر اڈے والا منت سماجت کر کے معاف کرواتا ہے یا کم و بیش تاوان ادا کرتا ہے۔
ان کے علاوہ دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔
میرے علم کے مطابق وجہ کوئی بھی ہو اڈے والوں کو صفائی کے دوران عرصہ دراز سے پڑے ہوئے ہر ہر کارٹن کے پڑے رہنے کی واقعی وجہ تلاش کرنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ بس وہ یہ دیکھتے ہیں کہ جس کارٹن کو تقریباً سال گذر گیا ہے اسے نیلام کر دیا جائے۔ نیلام کرنے کے لیے وہ اپنے تعلق والے مصری شاہ کے بیو پاریوں کو بلاتے ہیں۔ مصری شاہ والے بیوپاری بہت سستے داموں مال اٹھاتے ہیں۔ چونکہ اس میں ہر قسم کی اشیاء ہوتی ہیں کتابیں، کپڑے، جوتیاں، برتن وغیرہ وغیرہ۔ لہذا شہر کی ہر مارکیٹ کے تاجر مصری شاہ کے ان بیو پارریوں کے گوداموں میں چکر لگاتے رہتے ہیں جہاں سے انہیں اپنی مطلوبہ اشیاء اونے پونے داموں مل جاتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ میں اردو بازار کا تاجر ہوں اور مصری شاہ کے گوداموں میں جا کر ایسی اشیاء خردیتا ہوں کیا میرے لیے ایسی چیزوں کو خرید کر آگے فروخت کرنا یا اپنے استعمال میں لانا درست ہے؟
وضاحت مطلوب ہے: جس نے بلٹی کروائی ہے اس کا کچھ اتا پتہ ہوتا ہے یا وہ بھی نہیں ہوتا؟
جواب وضاحت: بلٹی کروانے والے کا بھی صرف نام درج ہوتا ہے۔ بعض اوقات جس شخص نے بلٹی وصول کرنی ہوتی ہے صرف اس کا نام لکھا جاتا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
سوال میں پوچھی گئی اشیاء میں سے کچھ تو ایسی ہیں جو اڈے والوں کی ملکیت ہو چکی ہیں کیونکہ ان کے مالکوں نے یا تو معاوضہ لے لیا تھا یا معاف کر دیا تھا۔ ان اشیاء کا بیچنا اور خریدنا بلا شبہ جائز ہے۔ اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے مالک آئے نہیں اور ان کا رابطہ بھی معلوم نہیں یہ اشیاء لقطے کے حکم میں ہیں۔ جن کی خرید و فروخت جائز ہے۔ البتہ بائع پر اس کی ذمہ داری رہے گی کہ وہ اس رقم کو صدقہ کرے پھر اگر مالک آجائے اور صدقہ پر راضی نہ ہو اور اپنی رقم کا تقاضا کرے تو اس کو ادا کرے لیکن بہر حال آپ کے لیے ایسی اشیاء خریدنا جائز ہے۔
فتاویٰ شامی (6/427) میں ہے:
قوله: (فينتفع الرافع) أي من رفعها من الارض: أي التقطها وأتى بالفاء، فدل على أنه إنما ينتفع بها بعد الاشهاد والتعريف إلى أن غلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها، والمراد جواز الانتفاع بها والتصدق، وله إمساكها لصاحبها، وفي الخلاصة: له بيعها أيضا وإمساك ثمنها، ثم إذا جاء ربها ليس له نقض البيع لو بأمر القاضي، وإلا فلو قائمة له إبطاله، وإن هلكت، فإن شاء ضمن البائع وعند ذلك ينفذ بيعه في ظاهر الرواية.
فتاویٰ عالمگیریہ (4/344) میں ہے:
وفي فتاوى أبي الليث رحمه الله إذا كانت الوديعة شيئاً يخاف عليه الفساد وصاحب الوديعة غائب فإن رفع الأمر إلى القاضي حتى يبيعه جاز وهو الأولى وإن لم يرفع حتى فسدت لا ضمان عليه لأنه حفظ الوديعة على ما أمر به كذا في المحيط. وإن لم يكن في البلد قاض باعها وحفظ ثمنها لصاحبها كذا في السراج الوهاج.
وأيضاً فيه (4/360):
وإن كانت الوديعة شيئاً لا يمكن أن يؤاجر، فالقاضي يأمره بأن ينفق من ماله يوماً أو يومين، أو ثلاثة رجاء أن يحضر المالك، ولا يأمره بالإنفاق زيادة على ذلك، بلى يأمره بالبيع وإمساك الثمن.
اس پر امداد الاحکام (4/629)میں لکھا ہے:
وفي ديارنا لا يمكن الرفع إلى القاضي فجماعة المسلمين قائمة مقامه… فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved