• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بینک کے سودسے انکم ٹیکس ادا کرنا

استفتاء

(الف) دریافت  طلب مسئلہ یہ ہے کہ مندرجہ ذیل حالات  حاضرہ کے پیش نظر کیا بینک کے سود سے انکم ٹیکس  ادا کیا جاسکتاہے اور کیا یہ ادائیگی اپنے اوپر خرچ کرنا  قرار دی جائیگی؟

1۔سال 1973ء کے آئین پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا تصور صرف مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کی خاطر پیش کیاگیا ہے  اور یہی وجہ ہے آئین پاکستان کے آرٹکل 31 کے مطابق اس 35سال  کے طویل عرصہ میں کسی حکومت نے کبھی بھی معاشرہ کو  اسلامی  اقدار کے مطابق ڈھالنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ بلکہ روشن خیالی کے نام پر  فحاشی، عریانی ،بے حجابی،سینماؤں،مخلوط دوڑوں،ڈراموں،ناچ گانوں  کے فروغ پر اور ان کے  کرتا دھرتؤں پر بے شمار رقم خرچ کی گئی ہے۔

2۔مملکت کے جملہ نظام معیشت کی بنیاد سودی کاروبار پر قائم کی گئی ہے۔ انفرادی لین دین ہو یا اجتماعی ، اندرونی  تجارت ہو یا بیرونی سب  ہی میں سود کی  امیزش ہے۔ حتی کے سرکاری ملازمین کو سود سے  حاصل کردہ رقم سے تنخواہیں  ادا کی جاتی ہیں۔ مملکت اور عوام الناس عرصہ 60سال سے اللہ اور رسولﷺ  سے مسلسل بڑی استقامت کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔

3۔اس سودی نظام کے بل بوتے پر  پلنے والے زیادہ  تر افراد سر براقتدار آتے رہے ہیں۔ اور آتے رہیں گے حالانکہ  وہ اس امانت کے اہل  ہی نہیں۔

4۔قصر صدارت۔وزراء  اور دیگر سرکاری رہائش گاہوں وغیرہ کی تعمیر پر بے اندازہ بیت المال سے رقم خرچ کی گئی ہے جبکہ روائتی طورپر ان کی زیبائش پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔ اسلامی  طرززندگی  کی سادگی ہر دور میں مفقود رہی ہے۔

5۔مملکت کے ارباب  نے سرکاری محکموں میں اپنے منظور نظر نا  اہل اور بددیانت افراد کو بھی بڑی بڑ ی تنخواہوں پر ملازم  رکھا ہواتھا جبکہ اہل اور ایماندار  انفراد نوکری کے لیے دھکے کھارہے ہیں۔ ان نااہل افراد کو بیت المال ہی سے بڑی رقوم بطور تنخواہ ۔ الاؤنسس وغیرہ ادا کی جارہی تھیں۔ اور اب بھی ایسا ہی  ہونے کا احتمال ہے۔

6۔حکومت  پر قابض افراد آئے دن بلا وجہ صرف اپنے نام ونمود  سیروتفریح کی خاطر بیت المال کا ایک بڑا حصہ بیرون ملک کے دوروں پر خرچ کررہے ہیں جبکہ عوام الناس کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر سے بہت  پیچے  چلا گیا ہے اور خود کشی کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔

7۔برسراقتدار ٹولہ قوم کے پیسوں سے  سامان حرب خرید کر مسلمانوں کے خلاف ہی  استعمال کررہا ہے۔

8۔محکمہ انکم ٹیکس اکاؤنٹ ہولڈر ز کے اکاؤنٹ پر بینک میں سودی  آمدنی پر  ٹیکس وضع کررہا ہے اور  اسے کوئی کراہت محسوس  نہیں ہوتی۔وغیرہ وغیرہ۔ ان  حالات میں  کیا ادائیگی زکوٰة کے بعد اپنی پاک کمائی  سے انکم ٹیکس ادا کرنا  ہر  برسر اقتدار ٹولے کی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا  نہیں ہوگا؟ اگر کوئی شخص انکم ٹیکس بالکل ادا نہیں کرتا یا اگر کرتاہے تو تھوڑا بہت تو کیا  ایسا شخص عدم ادائیگی زکوٰة کی طرح روز قیامت قابل مواخذہ ہوگا؟

1۔اول تو یہ ہے کہ انکم ٹیکس آمدنی پر  آعائد کیا  گیا۔ نصاب زکوٰة کی طرح سال گزشتہ کی بچت پر  نہیں۔ اگر ایک آدمی کی آمدنی  ڈیڑھ لاکھ  روپے  سالانہ کی  ہے  او ر خرچہ  ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے تو اسے  ڈیڑھ  لاکھ آمدنی پر ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ حالانکہ  اس شخص نے دس ہزار روپے قرض لے کر خرچہ پورا کیا ہے۔

2۔انکم ٹیکس کی شرح ٹیکس آمدنی کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے ۔ مثلا اگر ڈیڑھ لاکھ سے اوپر  دو فیصد سالانہ کے حساب سے  ہے تو دو لاکھ پر  تین فیصد اور چار لاکھ پر پانچ فیصد۔ مگرزکوٰة  میں  ڈھائی فیصد ہی رہتی ہے۔

3۔یہ کہ ایسے بیشمار افراد ہیں کہ جن کی آمدنی پانچ لاکھ  ، چھ لاکھ روپے سالانہ  سے زائد ہے ان کے پاس بڑے مکان اور کاریں وغیرہ ہیں ۔ مگر چونکہ  ان کا نام  محکمہ ٹیکس  کے ریکارڈ میں نہیں ہے اس  لئے وہ ایک پیسہ بھی ادا نہیں کرتے۔ جو لوگ کسی طور اس  جال  میں پھنس گئے ہیں ۔ انہی پر ہر سال ٹیکس کا اضافہ کردیا جاتاہے  اور ساری کسر ان میں سے پوری کی جاتی ہے۔ انکم ٹیکس کا نفاذ فلسفہ  زکوٰة کے بالکل خلاف ہے۔

الجواب

1۔کیا انکم ٹیکس سے بچنے کی کوئی جائز صورت ہے؟

2۔بینک میں سودی اکاؤنٹ کھولنا اورا س پر نفع لینا جائز ہے؟ کیونکہ یہ عمل اگر درست ہوتب ہی تو کوئی شخص اکاؤنٹ کھول کر اور سود  لے کر اس سے ٹیکس اداکرےگا۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved