• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بینک کی کمائی سے خریداگیا مکان ہدیے میں ملاپھروہ کسی کو وراثت میں ملاتوکیاوارث یہ مکان مسجد کو دےسکتا ہے؟

استفتاء

میرے مرحوم سسر بینک میں ملازم تھے،انہوں نےاپنا ایک مکان اپنی بیٹی(جوکہ میری بیوی ہےاس) کے نام مرنے سے پہلے ہی کردیاتھا،اب میری اہلیہ کا بھی انتقال ہوگیا ہے مرحومہ کے ترکہ میں سے مجھے گھر کا جو حصہ ملا ہے میں  اس حصہ کو مسجد یا کسی اور فلاحی کام میں لا سکتا ہوں ؟جبکہ اس گھر کی اصل کمائی بینک کے پیسوں  کی ہے۔مسجد والے کہتے ہیں کہ کوئی فتوی لاؤ تو ہم لے لیں گے۔

وضاحت(1)سسر کی بینک میں ملازمت کس نوعیت کی تھی؟(2)آپ مسجد وغیرہ میں وہ جگہ دینا چاہتےہیں یا اس جگہ کو بیچ کراس کے پیسے مسجد وغیرہ میں دینا چاہتے ہیں؟

جواب وضاحت:(1)بینک اکاؤنٹر تھا۔(2)بعینہ اس جگہ کو مسجد میں دینا چاہتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بہترتویہ ہے کہ آپ یہ مکان مسجد میں نہ دیں تاہم گنجائش ہے۔

حاشیہ ابن عابدین(5/235)میں ہے:

(قوله ‌اكتسب ‌حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved