- فتوی نمبر: 4-153
- تاریخ: 22 جولائی 2011
- عنوانات: مالی معاملات > امانت و ودیعت
استفتاء
میرے والد صاحب مرحوم نے 27 سال ( 1998۔ 1971 ) حبیب بینک میں منیجر کی نوکری کی۔ لہذا ساری عمر کی آمدنی صرف اسی بینک کی نوکری سے ہوئی۔ انہوں نے اس آمدنی سے ہی سارے اثاثے بنائے۔ یہ اثاثے اور ان کے استعمال کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ ایک عدد مکان جو کہ انہوں نے پچیس سال پہلے ڈھائی لاکھ روپے کا خریدا تھا۔ ہم پچیس سالوں سے اسی گھر میں رہائش پذیر ہیں اور اب اس مکان کی مالیت پچیس لاکھ روپے ہو چکی ہے۔
2۔ ایک عدد پلاٹ جو کہ انہوں نےدس سال پہلے دو لاکھ روپے کاخریدا تھا، اب اس کی مالیت چار لاکھ روپے ہے۔
3۔ ایک عدد فلیٹ جسے والد صاحب نے بیس سال پہلے سے 75 ہزار روپے میں خرید کر اس وقت سے کرائے پر چڑھایا ہوا ہے، اس کی قیمت خرید میں چالیس فیصد میری امی کے ذاتی زیور ( جوکہ نانا نے تحفتا دیے تھے) اور بقایا ساٹھ فیصد والد صاحب کی آمدنی سے استعمال ہوئے۔ اب اس فلیٹ کی قیمت سات لاکھ ہے۔
4۔ دو عدد گاڑیاں جن میں سے ایک گاڑی بیس سال پہلے ، دو لاکھ روپے کی خریدی گئی تھی۔ اب اس کی مالیت ڈھائی لاکھ روپے ہے۔ دوسری گاڑی پانچ سال پہلے دو لاکھ روپے کی خریدی گئی تھی اور اب اس کی مالیت ڈھائی لاکھ ہے۔ یہ دونوں گاڑیاں ہم روز مرہ کی آمد و رفت میں استعمال کرتے ہیں۔
5۔ ہمارے والد صاحب کو بینک کی ملازمت سے ریٹائر ہونے پر دو لاکھ روپے ملے۔ اس سے انہوں نے نیشنل سیونگ سرٹیفیکیٹ لے کر رکھوا دیئے۔ اس پر ماہانہ رقم نیشنل سیونگ بینک سے ملتی رہتی ہے، جسے ہم گھریلو خرچوں میں استعمال کرتے ہیں۔
اب ہم اولاد کو خیال آتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ کہ اگر ہمارے والد صاحب ( جو کہ بینک کی نوکری کو اپنے گمان کے مطابق صحیح سمجھتے تھے) کو زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی اگر گناہ مل رہا ہے ( اس بینک کی آمدنی کے ذریعے زندگی گذارنے اور انہی پیسوں سے اثاثے بنانے پر ) تو کیا ہم کس طرح سے اس گناہ کو ختم کر سکتے ہیں یا نہیں؟
مزید معلومات کے لیے بتاتے چلیں کہ ہم صر ف تین ہی بھائی اپنے والدین کی اولاد ہیں۔ سارے عاقل بالغ اور اپنی اپنی نوکریوں پر فائز ہیں، اپنی اپنی اولاد اور ہماری امی صاحبہ کے ساتھ ملکر اسی گھر میں گذر بسر کرتے ہیں جو ہمارے والد صاحب نے اپنی زندگی میں پچیس سال پہلے خریدا تھا (اس گھر کی تفصیل اثاثہ نمبر 1میں بیان کی جاچکی ہے۔ ) آمد و رفت کے لیے بھی وہی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں جو والد صاحب نے اپنی زندگی میں اسی بینک کی نوکری کے پیسے سے خریدی تھیں۔
غرضیکہ ہمارے سارے ہی اثاثے والد صاحب کی بینک کی آمدنی کے بنے ہوئے ہیں جن سے ہماری رہنے کی اور آمد و رفت کی گذر بسر ہے۔ ہماری اپنی نوکریاں اس قابل تو ہیں کہ ہم کرائے کے گھروں میں منتقل ہو جائیں اور آمد رفت کے لیے بھی والد صاحب والی گاڑیاں چھوڑ دیں ( جو کہ انہوں نے خریدی تھیں۔ ان گاڑیوں کی تفصیل بھی اثاثہ نمبر 4 میں درج کی جاچکی ہے )۔
مگر اسلام اور شرعی لحاظ سے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ اس کے لیے مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات مطلوب ہیں۔
1۔ اس بیان کی گئی صورتحال میں ہمارے والد صاحب کی زندگی کے اس گناہ اور فوت ہونے کے بعد بھی اگر صاحب گناہ کے مرتکب ہوتے چلے جارہے ہیں تو ہم اس گناہ کو ختم اور مزیدبڑھنے سے روکنے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟
2۔ کیا ہم بھی گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں؟ اگر ہم بھی گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں تو اب ہم اس گناہ سے کیسے چھٹکارا پاسکتے ہیں؟
3۔ کیا یہ گھر جسمیں ہم رہائش پذیر ہیں ( جس کا حوالہ اثاثہ نمبر 1 میں درج کیا جا چکا ہے ) اس میں رہائش رکھے رہنا ہمارے لیے جائز ہے؟ اگر نہیں تو کیا اس کی موجودہ کل مالیت کے برابر رقم بغیر ثواب کی نیت سے کہیں دے دینے سے یہ گھر ہمارے لیے بغیر ثواب کی نیت کے کہیں دینے سے یہ گھر ہمارے لیے حلال ہوجائے گا؟ یا پھر وہ کتنی قیمت ہوگی جسے بغیر ثواب کی نیت کے کہیں دینے سے یہ گھر ہمارے لیے حلال ہو جائے گا؟ کیا ہم اس گھر میں رہائش رکھنے کی بجائے بیچ کر ایک نیا یا بڑا گھر خریدنا چاہیں تو اس مکان کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو نئے مکان کی خرید میں استعمال کرنا جائز ہوگا؟
4۔ اسی طرح ہمارا خالی پلاٹ جس کی تفصیل اثاثہ نمبر 2 میں درج کی جاچکی ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آیا یہ بھی ہمارے لیے جائز ہے یا ناجائز؟ اگر جائز نہیں تو کیا اس کی موجودہ کل مالیت کے برابر رقم بغیرثواب کی نیت سے کہیں دے دینے سے یہ پلاٹ ہمارے لیے حلال ہوگا؟ یا صرف اس کی وہ قیمت جس پر اسے دس سال پہلے خریدا گیا تھا، وہ قیمت بغیر ثواب کی نیت کے کہیں دینے سے یہ پلاٹ ہمارے لیے حلال ہو جائے گا؟ یا پھر وہ کتنی قیمت ہوگی جسے بغیر ثواب کی نیت کے کہیں دینے سے یہ پلاٹ ہمارے لیے حلال ہوجائے گا؟
5۔ اسی طرح جس فلیٹ کا ذکر اثاثہ نمبر 3 میں درج کیا جا چکا ہے، اس کے بارےمیں ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ یعنی کیا یہ فلیٹ ہمارا جائز ، حلال اثاثہ ہے؟ ورنہ اس کی کل مالیت کا کتنا حصہ جائز ہوگا؟ اور اس کے ماہانہ کرائے کی آمدنی کے بارے میں کیا حکم سامنے آئے گا؟
6۔ یہ دو گاڑیاں جن کا ذکر اثاثہ نمبر 4 میں درج کیا جاچکا ہے اور ہمارے استعمال میں ہر وقت رہتی ہیں، کیا ان کا استعمال جائز ہے؟ کیا ان کو فروخت کر کے اس کے پیسوں کو ملا کر نئی گاڑیاں خریدی جا سکتی ہیں؟
7۔ ہمارے والد صاحب کی جو رقم نیشنل سیونگ سرٹیفیکیٹ کی صورت میں بینک میں رکھی گئی ہے( جس کا ذکر کا اثاثہ نمبر 5 میں درج کیا جاچکا ہے ) وہ ہمارے لیے جائز ہے یا نا جائز؟ اور کیا اس سے ماہانہ ملنے والی رقم ہمارے لیے جائز ہے یا ناجائز؟ اور انہی سرٹیفیکیٹ کی ماہانہ ملنے والی رقم جو ہم کئی سالوں سے اپنے اخراجات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس کے لیے کیا حکم ہے؟
8۔ والد صاحب مرحوم کی پینشن کی وہ رقم جو ہر مہینے ہماری والدہ صاحبہ کو ملتی ہے، کیا وہ رقم استعمال کرنا جائز ہے؟
9۔ ہم تینوں بھائی پیدائش سے اور ہماری والدہ صاحبہ شادی کے بعد سے ہمارے والد صاحب کی ( بینک کی ہی ) آمدنی پر پلے بڑھے ہیں۔ لہذا ہماری اس زندگی کے دور کے بارے میں ہم پر اب کیا حکم سامنے آتا ہے؟ کیا ہمیں اور ہمارے والد صاحب پر کوئی کفارہ یا کوئی حکم لازم آتا ہے کہ جسے لوٹائے بغیر ہماری آخرت میں پکڑ ہو؟ یعنی اس گذرے ہوئے دور کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
10۔ برائے مہربانی ہماری تسلی کے لیے یہ بھی واضح فرما دیجئے کہ آیا بینک کی نوکری واقعی حرام ہے؟ حرام ثابت ہے؟ یا اس میں ابھی بھی شک ہے یا یہ سب تقویٰ پر ہی منحصر ہے کہ جو چاہے حلال سمجھے اور جو چاہے حرام اور اس سے بچے؟ کیونکہ ہمارے سارے سوالات کی جڑ یہی سوال ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اس وقت آپ کے اثاثوں کی مالیت تقریبا 38.8 لاکھ روپے ہے۔ سالہا سال سے جو نفع آپ لوگوں نے کھایا یا اٹھایا وہ اس کے علاوہ۔ ان اثاثوں کی ملکیت تو آپ کو حاصل ہے لیکن جو ملازمت سودی کام پر مشتمل ہو وہ صحیح نہیں اور جو اجرت سودی کام پر حاصل وہ حلال نہیں۔ جو کچھ آپ لوگ کھا چکے اور نفع اٹھا چکے اس پر توبہ و استغفار کیجئے اپنے لیے بھی اور اپنے والد کے لیے بھی۔
آپ لوگ ہمت کر کے اگر اتنی رقم یا اگر اندازہ ہو کہ کتنا کام سودی لکھت پڑھت کا تھا اور کتنا غیر سودی تھا تو اس تناسب سے جو سودی کام کی رقم بنتی ہو اتنی رقم صدقہ کر دیں۔ یکمشت یا تھوڑی تھوڑی کر کے تو آپ بھی اور آپ کے والد بھی انشاء اللہ فارغ الذمہ ہوں گے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved