- فتوی نمبر: 8-90
- تاریخ: 26 نومبر 2015
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
کیا بینک کو جگہ کرائے پر دی جا سکتی ہے؟ اگر جائز ہے تو کرایہ کس درجہ کی حلال روزی کے ضمن میں آتا ہے؟ جناب میرا ہمسایہ اپنی دکان اور مکان ایک بینک کو کرایہ پر دینا چاہتا ہے، اس کا فرنٹ 15 فٹ ہے، جبکہ ٹوٹل رقبہ 1800SF بنتا ہے۔ اس کی دکان کے ساتھ میری دکان ہے، جس کا فرنٹ 10F ہے، جبکہ ٹوٹل رقبہ 156 فٹ ہے۔
1800f
|
||
10F | 15F |
میری دکان بینک بننے میں رکاوٹ ہے۔ میرا ہمسایہ مجھے یہ مشورہ دے رہا ہے، کہ دونوں مل کر 2 عدد پراپرٹیز بینک کو کرائے پر دے دیتے ہیں، اس کی وجہ سے بینک کا فرنٹ بڑا اور خوبصورت بن جائے گا اور مجھے دکان کی ویلیو کے حساب سے 3/1 حصہ کرایہ کا مل جائے گا۔
بینک کے ساتھ براہ راست معاملہ میرا ہمسایہ ہی طے کر رہا ہے۔ مجھے وہ اپنے طور پر کرایہ آفر کر رہا ہے، اگر میں اپنی پراپرٹی اپنے ہمسایہ کو کرایہ پر دوں، اور وہ اس پراپرٹی کو آگے بینک کو کرایہ پر دے دے تو میرا اپنے ہمسائے سے کرایہ وصول کرنا شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں بینک کو اپنی دکان کرایہ پر دینا جائز نہیں۔ خواہ آپ اپنی دکان خود بینک کو کرایہ پر دیں یا آپ اپنے پڑوسی کو کرایہ پر دیں اور پھر وہ آگے بینک کو کرایہ پر دے۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں بینک کے ساتھ تعاون ہے۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں اصل مقصود تو بینک کو ہی دینا ہے۔ پڑوسی کو دینے کی بات تو محض ایک حیلے کے طور پر ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved