• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بینک ملازم کی کمائی مسجد میں لگانا

استفتاء

سودی بینک میں ملازمت کی تنخواہ مسجد میں لگانا کیسا ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ(1) سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟(2) سودی بینک سے کون سا بینک مراد ہے؟(3) بینک  میں ملازم کے ذمے کیا کام ہے؟

جواب وضاحت(1) سائل کا اپنا ہی سوال ہے اور لوگوں کا بھی ہے(2)بینک الائیڈہے(3) اکاؤنٹنٹ کاکام ذمےہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

بینک کی ملازمت کی تنخواہ کا دارومدار اس پر ہے کہ ملازم کے ذمہ کام کیا ہے؟اس لئے اور لوگوں کے بارے میں تو تب ہی کچھ کہا جا سکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ ان کے ذمے کیا کام ہے،تاہم آپ کے ذمے چونکہ اکاؤنٹنٹ کا کام ہے اور اس میں آپ کو سودی حسابات لکھنے پڑھتے ہیں ،اس لئے اس کی آمدنی جائز نہیں اور مسجد میں لگانا بھی جائز نہیں۔

شامی جلد نمبر 2 صفحہ 520 میں ہے:

لو بماله الحلال لامن مال الوقف فانه حرام

قوله ( لو بماله الحلال ) قال تاج الشريعة أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب فيكره تلويث بيته بما لا يقبله ا هـ

فتاوی دارالعلوم دیوبند جلد نمبر 13 صفحہ 398میں ہے:

سوال سود لینے والے کا پیسہ مسجد میں لگانا اور اس کے گھر کا کھانا درست ہے یا نہیں؟

جواب :اس کا نہ کھانا درست ہے اور نہ مسجد میں لگانا درست ہے۔

و فیہ

جواب :مسجد میں سود کی آمدنی کا روپیہ لگانا اور مشتبہ مال لگانا مکروہ وممنوع ہے۔

فتاوی محمودیہ جلد نمبر 15 صفحہ 106 میں ہے:

سوال :تقریبا پندرہ سال ہو گئے ہیں ،ہماری مسجد میں سود خوروں کے پیسے سے بجلی کی فٹنگ اور پنکھا لگا ہوا ہے ۔شرعا حرام ہے یا نہیں؟

جواب:ناجائز آمدنی کا پیسہ مسجد میں لگانا درست نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط والله تعالي اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved